شاہ شجاع کرمانی
شاہ شجاع کرمانی (تذکرہ / سوانح)
کنیت ابوالفوارس تھی۔ قطب الوقت تھے واقفان حقیقت اور عظمائے اعیانِ طریقت تھے۔ خوارق و کرامات میں بہت مشہور تھے۔ آپ کے والد بادشاہ کرمان تھے۔ آپ نے ولی عہدی کی بجائے یاد الٰہی کو اختیار کیا۔ شیخ ابوحفص حداد کے مرید ہوگئے اور ہم عصر بزرگان دین جن میں شیخ ابوتراب بخشی ابوذراع مصری ابوعبیدہ بصری کے اسمائے گرامی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں سے صحبت خاص رکھتے تھے۔ ان بزرگان وقت سے بڑا استفادہ کیا۔ تیس سال تک نیند سے لطف اندوز نہیں ہوئے ۔ نیند آتی تو آنکھوں میں نمک کی سلائی پھیرلیتے تیس سال کے بعد ایک بار آنکھ لگی تو اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا، فرمانے لگے جس ذات کی تلاش بیداری میں کرتا تھا نیند میں مل گئی، اس دن کے بعد ہر روز شوق سے سوتے جہاں جاتے اپنا بستر ہمراہ لے جاتے، چند ماہ سوتے سوتے گزارے، جب خواب میں زیارت نہ ہوئی بڑے دل برداشتہ ہوئے، چنانچہ ایک رات پھر زیارت ہوئی، تو ارشاد ہوا، جو خواب تم نے دیکھا تھا وہ تمہاری تیس سالہ بیداری کا صلہ تھا، اس طرح ہر روز یہ صلہ نہیں ملا کرتا۔
حضرت شاہ کرمانی کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا دیا۔ جس کے سینے پر سبز روشنائی سے لفظ اللہ لکھا ہوا تھا۔ یہ لڑکا جوانی کو پہنچا تو لہو و لعب میں مشغول ہوگیا۔ ستار بجاتا رباب پر رقص کرتا، اور طرح طرح کے گانے گاتا آواز میٹھی تھی، رباب بجاتا اور خوب گاتا اور روتا، ایک رات رباب پکڑے محلہ ربابیاں میں آپہنچا، ایک تازہ بیاہی دلہن نے اسے اس انداز سے رباب بجاتے اور گاتے سنا تو اپنے آپ سے باہر ہوکر اس کا گانا سننے لگی۔ اس کا خاوند اٹھا اس صورتحال کو دیکھ کر نہ رہ سکا، زور سے آواز دی ’’شجاع کے بیٹے! تم کب توبہ کرو گے؟‘‘ اس وقت خواب غفلت سے بیدار ہوا چلا کر کہنے لگا، ابھی ابھی! اٹھا، رباب کو توڑ پھینکا غسل کیا، کپڑے بدلے اپنے گھر گوشہ نشین ہوگیا سینے پر لکھے ہوئے اسم نے اثر کیا، دل کی گہرائیوں میں اتر گیا چالیس دن تک کچھ نہ کھایا ایک دن اپنے حجرے سے باہر نکلا تو واصل بحق ہوگیا باپ نے اس معاملہ کو دیکھا تو فرمایا جو مقام ہم چالیس سال کی محنت سے حاصل نہ کرسکے، میرے بیٹے کو چالیس دن میں میسر آگیا ہے۔
شاہ شجاع کرمانی کی بیٹی نہایت خوش شکل تھی، بادشاہ کرمان نے اس بیٹی کا رشتہ مانگا، آپ نے فرمایا: مجھے تین دن سوچ لینے دیں تین دن مسجد کے گرد گشت کرتے رہے تیسرے دن ایک درویش دیکھا جو مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، نماز سے فارغ ہوا، آپ نے اس سے پوچھا کیوں بھائی تم شادی شدہ ہو، اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا تم شادی کرنا چاہتے ہو، اس نے کہا: مجھ جیسے مفلس کو کون بیٹی دیتا ہے، آپ نے فرمایا: میں اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کرنا چاہتا ہوں تم ایک درہم سے کھانا کھالینا ایک درہم سے خوشبو خرید لو، اور ایک درہم سے شیرینی لے لو، اس طرح آپ نے اس درویش کے ساتھ بیٹی کا نکاح کردیا، وہ لڑکی اس درویش کے گھر آئی، تو دیکھا کہ اس درویش کے گھر ایک خشک روٹی پڑی ہے، پوچھا کہ یہ کیا ہے کہنے لگا کل روٹی بچ گئی تھی، آج کے لیے رکھ لی تھی، لڑکی اسی وقت اٹھ کھڑی ہوئی، اور کہنے لگی میں اس گھر میں نہیں رہ سکتی، درویش نے کہا: مجھے پہلے ہی علم تھا کہ بادشاہ کی لڑکی ایک بے نوا درویش کے گھر نہیں رہ سکتی، لڑکی نے کہا: تمہاری بے نوائی سے نہیں بلکہ تمہاری ایمانی کمزوری سے جا رہی ہوں، تمہیں اللہ پر اتنا بھروسہ نہیں کہ وہ آج روزی دے گا، کل کی بچی ہوئی روٹی محفوظ رکھتے ہو، میرے باپ نے مجھے بتایا تھا کہ میں تمہیں ایک پرہیزگار کے نکاح میں دے رہا ہوں، مجھے اس شخص کے حوالے کیا گیا ہے جسے اللہ کی ذات پر اتنا اعتقاد نہیں کہ وہ دوسرے دن کی روزی دے گا، درویش نے محسوس کیا کہ واقعی یہ ایمان کی کمزوری کی علامت ہے، اس نے پوچھا کیا اس گناہ کا کوئی کفارہ ہے لڑکی نے کہا: اس گھر میں یا میں رہوں گی یا روٹی، درویش نے روٹی اٹھائی اور سائل کو دے دی، آئندہ زندگی کے لیے اللہ کے توکل پر بھروسہ کیا۔
خواجہ علی سیر جانی حضرت شاہ شجاع کے مزار کے سامنے روٹیاں تقسیم کیا کرتا تھا ایک دن طعام سامنے رکھے کہنے لگے: یا اللہ کوئی اپنا مہمان بھیج جس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالوں، ناگاہ مسجد کے دروازے سے ایک کتا نکلتا دکھائی دیا، کتے کو دھتکارا، کتا بھاگ گیا، مزار سے آواز آئی، علی! ہم نے تمہارے لیے مہمان بھیجا تھا، تم نے اسے دھتکار دیا، خواجہ علی اٹھے، اور سارے شہر کی گلیاں چھان ماریں مگر اس کتے کا نشان کہیں نہ ملا، صحراء کی طرف گئے تو ایک درخت کے زیرسایہ اسی کتے کو سویا ہوا پایا، اٹھایا جو کچھ کھانا لائے تھے اس کے سامنے رکھا، مگر کتے نے توجہ تک نہ دی، خواجہ علی بڑے شرمسار ہوئے کہ میں نے کیا کیا، اپنے گناہوں سے توبہ کی اپنی پگڑی اتار کر قدموں میں پھینک دی کتے نے زبان حال سے کہا اَحسنت خواجہ، تمہیں مہمان کی ضرورت ہے تم چشم بینا سے دیکھو تو مہمان مل جاتے ہیں یہ کہہ کر جو کچھ سامنے تھا کھانا شروع کردیا۔
حضرت شاہ شجاع ۲۷۰ھ کو فوت ہوئے۔
آن شہِ کرماں شہنشاہِ جہاں اہل دین حق بیں ہم از دل شدعیاں |
|
یافت چوں در جنت عالی مقام |
(خزینۃ الاصفیاء)