شہید غزوہ احد حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن حرام بن ثعلبہ الانصاری
شہید غزوہ احد حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن حرام بن ثعلبہ الانصاری (تذکرہ / سوانح)
شہید غزوہ احد حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن حرام بن ثعلبہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ابن عمرو بن حرام بن ثعلبہ بن حرام بن کعب بن غنم بن سلمہ بن سعد بن علی بن اسد بن ساردہ بن یزیدبن جشم بن خزرج انصاری خزرجی سلمی۔ان کی کنیت ابوجابر ہے بوجہ اسکے کہ جابر بن عبداللہ ان کے بیٹے تھے۔یہ عبداللہ بیعت عقبہ میں شریک تھےاور غزوہ بدرمیں بھی شریک تھے اور بنی سلمہ کے نقیب تھے یہ بھی اور براء بن معرور بھی۔ان کو عروہ اور ابن شہاب اور موسیٰ بن عقبہ اور ابن اسحاق نے ان لوگوں میں ذکرکیاہے جوبدراور احد میں شریک تھے اور احد میں شہید ہوئے ہمیں محمد بن محمد بن سرایا بن علی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں عبدالاول بن عیسیٰ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو منصور بن ابی عاصم یعنی فضیل ابن یحییٰ فضیلی نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے عبدالرحمٰن بن ابی شیخ نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے شعبہ نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم نے محمد بن سکندر سے سنا وہ کہتے تھے میں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے سناوہ کہتے تھے میرے والد احد کے دن شہید ہوئے میں ان کی نعش کے پاس گیاتو دیکھا کہ ان کے اعضا کاٹ ڈالے گئے ہیں اور ان کا منہ چھپا ہوا ہے پس میں رونے لگا سب لوگ مجھے رونے سے منع کرتے تھے مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مجھے منع نہ کرتے تھے پھر فاطمہ بنت عمرو یعنی میری پھوپھی رونے لگیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روؤ یا روؤ ان پر فرشتے اپنے پروں کا سایہ کیے ہوئے تھے جب تک تم نے اٹھایا۔ہمیں ابومحمد یعنی عبداللہ بن علی بن سویدہ تکرینی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن حسین بن فرخان نے اجازۃً خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالحسن یعنی علی بن احمد واحدی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر یعنی احمد واحدی نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر یعنی احمد بن محمد ابن حارث نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالشیخ حافظ نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن حسین حداء نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں علی بن مدینی نے خبروی کہتے تھے ہم سے موسیٰ بن ابراہیم بن بشیر بن فاکہ انصاری نے بیان کیا انھوں نے طلحہ بن خراش انصاری سے سنا وہ کہتے تھے میں نےحضرت جاب بن عبداللہ سے سنا وہ کہتے تھے (ایک دن) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا توفرمایاکہ کیا وجہ ہے میں تم کو اس وقت افسردہ اور غمگین دیکھتا ہوں میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے والد شہید ہوگئے اور انھوں نے قرض چھوڑا ہے اور اہل وعیال ہیں حضرت نے فرمایا اچھا میں تمھیں ایک خوشخبری سناتاہوں اللہ تعالیٰ جب کسی سے بات کرتاہے تو پردہ کے پیچھےسے مگر اس نے تمہارے والد سے بالمواجہہ باتیں کیں اور فرمایا کہ اے میرے بندے مجھ سے کچھ مانگ میں تجھے دوں گا تو تمھارے والد نے کہا کہ میراسوال یہ ہے کہ مجھے دنیا میں پھرواپس بھیج تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں قتل کیا جاؤں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ یہ بات تو میں کرچکاہوں کہ لوگ دنیا میں دوبارہ نہ بھیجے جائیں گے تو تمھارے والد نے کہا کہ اے میرے پروردگار ۔میرے پیچھے والوں کو اس کی خبر پہنچادے پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ولاتحسبن الذین قتلوافی سبیل اللہ امواتابل احیاءجب یہ غزوہ احد میں جانے لگے تو انھوں نے اپنے بیٹے جابرکو بلایااورکہا کہ اے میرے بیٹے میراخیال ہے کہ سب سے پہلے جولوگ شہید ہوں گے میں ان میں ہوں گا اور خدا کی قسم میں اپنے بعد سواذات اقدس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے تم سے زیادہ کسی کوعزیز نہیں چھوڑتا مجھ پر قرض ہے اس کو ادا کر
ترجمہ جولوگ خداکی راہ میں قتل کیے جائیں ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں۱۲
دینااوراپنی بہنوں کا خیال رکھنا۔حضرت جابر کہتے تھے کہ جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے میرے والد شہید ہوئےکافروں نے ان کی ناک اور کان کاٹ ڈالے تھے میرے والد اور عمرو بن جموح ایک ہی قبر میں مدفون کیے گئے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرو کیوں کہ یہ دونوں دنیا میں باہم بہت خالص محبت رکھتے تھے عمرو(مذکور)ان عبداللہ کے بہنوئی بھی تھے یعنی ہند بنت عمروبن حرام کے شوہر تھے۔
حضرت جابر کہتے تھے میں نے چھ مہینے کے بعد اپنے والد کے لئے نئی قبر کھودی اور پرانی قبرسے ان کو نئی قبر میں لایا۔میں نے ان کے جسم میں کسی قسم کا تغیر نہیں دیکھا سوااس کے ان کی ڈاڑھی کے چند بالووں مٹی لگ گئی تھے۔ہمیں ابوالحرام یعنی علی بن زیاد بن شبتہ مقری نحوی نے اپنی سند سے یحییٰ بن یحییٰ تک خبردی وہ مالک سے وہ عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ سے روایت کرتے تھے کہ ان کو یہ خبرملی کہ عمروبن جموح اور عبداللہ بن عمروبن حرام جو دونوں انصاری سلمی تھےسیل نےان دونوں کی قبر کھول دی تھی یہ دونوں ایک ہی قبر میں مدفون تھےاور دونوں احد کے دن شہید ہوئے تھے ان دونوں کی نعشیں ان کی قبروں سے نکالی گئیں تاکہ جگہ بدل دی جائے۔پس دیکھاگیا کہ ذرابھی تغیر ان کے جسم میں نہیں آیا ایسامعلوم ہوتاتھا کہ گویا ان دونوں کی وفات کل ہوئی ہے ان دونوں میں سے کسی نے اپناہاتھ اپنے زخم پر رکھ لیاتھا اوراسی حالت میں وہ دفن کردیے گئےتھے۔پس ان کا ہاتھ زخم سے ہٹایاگیااورپھرچھوڑاگیا تووہیں پہنچ گیاجہاں تھا۔غزوہ احد کو اس وقت چھیالیس برس گذرچکے تھے۔حضرت عبداللہ کواسامہ اعور بن عبید نےقتل کیا تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ سفیان ابن عبدشمس نے انھیں قتل کیا تھا جو ابواعورسلمی کاباپ تھا۔ان کا تذکرہ تینوں نے لکھاہے۔رضی اللہ عنہ وارضاہ۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)