شہید غزوہ احد حضرت سیدنا عبد اللہ بن جحش
شہید غزوہ احد حضرت سیدنا عبد اللہ بن جحش (تذکرہ / سوانح)
شہید غزوہ احد حضرت سیدنا عبد اللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نام و نسب
عبداللہ بن جحش بن ریاب بن یعمر بن صبرۃ مرۃ بن کثیر بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ۔
اولادِ اسد سے ہونے کی وجہ سے اسدی کہلاتے ہیں۔
آپ آنحضرت ﷺ کے پھوپھی زاد ہیں۔
آپ کی والدہ ، رسول اکرم ﷺ کی پھوپھی امیمہ بنت عبد المطلب ہیں۔
آپ بنو عبد شمس کے اور دوسری روایت کے مطابق حرب بن امیہ کے حلیف تھے۔ واقدی کے بیان کے مطابق آپ نے ان دنوں اسلام قبول کیا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے دارِ ارقم کو ابھی مرکز دعوت وتبلیغ نہیں بنایا تھا۔
آپ اور آپ کے بھائی ابو احمد عبد بن جحش ان اولین مہاجرین میں سے ہیں جنہوں نے دوبار ہجرت کا شرف حاصل کیا ۔ آپ کا ایک بھائی عبید اللہ بن جحش سرزمین حبشہ مین جا کر نصرانی ہو گیا تھا اور اسی حالت میں فوت ہو گیا تھا۔
ام حبیبہ بنت ابی سفیان اس کی زوجیت میں تھیں۔اس کے ارتداد کے سبب ان کا نکاح فسخ ہو گیا تھا تو اس کے بعد وہ رسول اکرم ﷺ کے عقد میں آکر ام المومنین کے مرتبہ پر فائز ہوئیں۔
ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش ، ام حبیبہ بنت جحش اور حمنہ بنت جحش یہ سب آپ (عبد اللہ بن جحش ) کی ہمشیرگان ہیں۔
حبشہ سے واپس آنے کے بعد آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی، بدری صحابی ہیں۔ غزوہ احد میں شریک ہوئے اور اللہ کی راہ میں قتل ہو کر مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔
کتابوں میں آپ کو ’’ المجدع فی اللہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ خوش نصیب جس کی ناک کو اللہ کی راہ میں کاٹ دیا گیا ، دراصل واقعہ یہ ہے کہ جب آپ کو غزوہ احد میں شہید کر دیا گیا تو دشمن نے آپ کا مثلہ کرتے ہوئے آپ کی ناک کاٹ دی تھی۔
سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : میں تمہارے اوپر ایک ایسے شخص کو امیر بنا کر بھیج رہا ہوں جو تم لوگوں سے زیادہ افضل تو نہیں البتہ وہ تم سب سے زیادہ بھوک پیاس برداشت کر سکتا ۔ چنانچہ آپ نے عبد اللہ بن جحش کو ان کا امیر بنا کر روانہ فر مایا ۔ شعبی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سب سے پہلا جھنڈا بنو امیہ کے حلیف عبد اللہ بن جحش کے ہاتھوں میں تھمایا تھا۔ عبد اللہ بن جحش وہ عظیم المرتبت بزرگ صحابی ہیں جنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے رسول اکرم ﷺ کے لئے مال ِ غنیمت میں سے خمس کا حکم نازل ہونے سے پہلے اس کا فیصلہ کر دیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے بعد میں اس کی تائید میں آیت خمس نازل فرمائی تھی۔ سعد بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن جحش نے نے غزوہ احد کے موقع پر ان سے فرمایا : آؤ مل کر دعایئں کریں۔ یہ ایک جانب بیٹھ کر دعایئں کرنے لگے۔
سعد نے دعا کی: اے رب! کل کو جب میرا دشمن سے مقابلہ ہو تو وہ جری اور بہادر ہو ، میں تیری رضا کے لئے اس سے لڑوں اور وہ مجھ سے لڑائی کرے ، اور مجھے قتل کردے ، پھر وہ میرے ناک کان کاٹ دے ، پھر جب میں تیرے ہاں حاضر ہوں اور تو مجھ سے پوچھے : عبد اللہ ! تیری ناک کان کیوں کاٹے گئے؟ تو میں کہوں : یا اللہ ! تیرے اور تیرے رسول کے ساتھ وفاداری کے نتیجے میں میرے ساتھ یہ سلوک کیا گیا اور پھر تو کہے کہ ہاں واقعی ایسا ہی ہے۔
سعد فرماتے ہیں: میری دعا کی نسبت عبد اللہ بن جحش کی دعا افضل تھی۔ میں نے اسی دن سر شام ان کے کٹے ہوئے کان اور ناک کو ایک دھاگے میں پروئے ہوئےدیکھا۔ زبیر نے ’’الموفقیات‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ لڑائی کے دوران ان کی تلوار ٹوٹ تو رسول اللہﷺ نے کھجور کی ایک ٹیڑھی میڑھی سی شاخ ان کو عطا فرمائی جو ان کے ہاتھ میں پہنچتے ہی اللہ کی قدرت سے تلوار بن گئی۔
بعض حضرات بیان کرتے ہیں کہ بظاہر دیکھنے میں اس تلوار کا دستہ کھجور کی شاخ ہی معلوم ہوتا تھا۔ اس تلوار کا نام ہی ’’ العرجون‘‘ ( یعنی کھجور کی ٹیڑھی شاخ ) رکھ دیا گیاتھا۔
بعد میں اس تلوار کو دو سو دینار کے عوض فروخت کر دیا گیا تھا۔ شہادت کے موقع پر آپ کی عمر مبارک چالیس برس سے کچھ زائد تھی۔ آپ کو ابو الحکم بن اخنس بن شریق ثقفی نے شہید کیا تھا۔
آپ کو اور سید الشہداء سیدنا امیر حمزہ کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کے ترکہ کی ذمہ داری سنبھالی اور ان کے بیٹے کو خیبر کے علاقے میں جایئداد خرید کر ۔ رسول اللہ ﷺ کی نظروں میں آپ ایک صائب الرائے شخصیت تھے۔ اسی لئے اسیرانِ بدر کے متعلق فیصلہ کے لئے آپ نے جہاں سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر سے مشاورت کی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ آپ نے عبد اللہ بن جحش سے بھی ان کی رائے طلب فرمائی تھی۔ (الساجی فی احکام القرآن)
رضی اللہ عنہ وارضاہ، آمین