شہید غزوہ احد حضرت سیدنا المجذر بن زیاد بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ہم ان کا نسب ان کے بھائی عبداللہ بن زیاد کے ترجمے میں بیان کر آئے ہیں۔ وہ خاندانی لحاظ سے بلوی ہیں، اور وہ انصار کے حلیف تھے۔ یہ وہی آدمی ہیں جنہوں نے زمانۂ جاہلیت میں سوید بن صامت کو قتل کیا تھا اور جنگ بعاث کی آگ بھڑک اُٹھی تھی۔ بعد میں مسلمان ہوگئے اور غزوۂ بدر میں شہادت پائی۔
ہمیں بحتری بن ہشام بن خالد بن اسد بن عبدالعزی نے ابوجعفر سے اس نے یونس سے، اس نے ابن اسحاق سے روایت کی کہ اس سے یزید بن رومان نے اس نے عزہ بن زبیر سے، اس نے ابن شہاب، محمد بن یحییٰ بن حبان اور عاصم بن عمر بن قتادہ اور عبداللہ بن ابوبکر وغیرہ سے غزوۂ بدر کے بارے میں بیان کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میدان جنگ میں تمہارا آمنا سامنا بھتری سے ہوجائےتو اسے قتل نہ کرنا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ شخص مکے کے ان لوگوں میں سے تھا جس نے حضور کو قیام مکہ کے دوران میں نہ تو کوئی تکلیف دی۔ اور نہ آپ کے بارے میں کبھی زبان درازی سے کام لیا۔ نیز یہ شخص ان لوگوں میں سے تھا جس نے اس رسوائے زمانہ تحریر کو ، جس کی وجہ سے بنو ہاشم کو تین برس شعب ابوطالب میں گزارنا پڑے تھے۔ متروک ا لعمل بنانے میں حصہ لیا تھا۔ اتفاقاً بحتری اور مجذر بن زیاد البلوی کی ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے کہا، بحتری! ’’رسول کریم نے ہمیں تمہارے قتل سے منع فرمادیا ہے۔‘‘ اس نے پوچھا، میرے ساتھی (ردیف) کے بارے میں کیا فیصلہ ہوگا۔ جناب مجذر نے کہا، اسے تو ہم امان نہیں دے سکتے۔ اس پر بحتری نے کہا، مَیں یہ گوارا کرسکتا ہوں کہ مکے کی عورتیں کہیں، کہ بحتری نے اپنی جان بچالی اور رفیق کو مروا دیا۔ چنانچہ دونوں یکیکی مقابلے پر تیار ہوگئے۔ مقابلے میں بحتری مارا گیا۔ جناب مجذر نے حضور کی خدمت میں سارا واقع بیان کیا، کہ بحتری نے خود مجھے مجبور کردیا، کہ مَیں اس سے مقابلہ کروں۔ چنانچہ وہ مارا گیا۔
جناب مجذر غزوۂ اُحد میں حارث بن سوید بن صامت کے ہاتھوں مارے گئے، حالانکہ قاتل نے بظاہر اسلام قبول کیا ہوا تھا اور اس تاک میں تھا کہ موقعہ پا کر مجذر کو قتل کردے۔ غزوۂ اُحد میں جب قریش نے مُڑ کر مسلمانوں پر حملہ کیا، تو حارث نے پیچھے سے وار کر کے مجذر کو قتل کردیا اور بھاگ کر مکے چلا گیا، بعد از فتح مکہ اس نے پھر اسلام قبول کرلیا، لیکن حضور اکرم نے اسے مجذر کے قصاص میں قتل کرادیا۔ تینوں نے اس کی تخریج کی ہے۔ اس مقابلے کے دوران میں بحتری یہ شعر پڑھتا رہا: ہر دوست اپنے دوست کی حفاظت کرتا ہے۔ تا آنکہ مر جائے! یا دوست کے بچاؤ کی کوئی سبیل نکالے۔