شہید غزوہ احد حضرت سیدنا مصعب بن عمیر بن ہاشم
شہید غزوہ احد حضرت سیدنا مصعب بن عمیر بن ہاشم (تذکرہ / سوانح)
شہید غزوہ احد حضرت سیدنا مصعب بن عمیر بن ہاشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سیدنا مصعب بن عمیر بن ہاشم بن عبد مناف بن عبد الدار بن قصی بن کلاب بن مرہ قرشی عبدری: ان کی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور برگزیدہ فضلائے صحابہ اور سابقوں اولون سے تھے۔ انہوں نے اس وقت اسلام قبول کیا۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم میں قیام فرما تھے۔ انہوں نے قوم اور ماں کے ڈر سے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا۔ وہ وقتاً فوقتاً چھپ چھپا کر حضور سے ملتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ عثمان بن طلحہ العبدری نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور ان کے خاندان والوں کو بتا دیا، جنہوں نے اُنہیں گھر میں بند کردیا، تا آنکہ وہ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے۔ وہاں سے واپسی پر وہ عقبہ اول کے بعد، اہلِ مدینہ کو نماز اور قرآن پڑھانے کے لیے مدینے چلے گئے تھے۔
عبید اللہ بن احمد نے باسنادہ تایونس بن بکیر سے، انہوں نے ابن اسحاق سے انہوں نے یزید بن حبیب سے روایت کی کہ انصار مدینہ عقبہ اولی کے بعد مصعب بن عمیر کو نماز کی امامت کے لیے اس لیے ساتھ لائے کہ بنواوس و خزرج بر بنائے رقابت ایک دوسرے کے اقتدا میں نماز ادا کرنے پر آمادہ نہ تھے۔
ابن اسحاق سے مروی ہے کہ اِن سے عبید اللہ بن ابی بکر بن حزم اور عبید اللہ بن مغیرہ بن معیقیب نے بیان کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب مصعب کو انصار کے ان بارہ آدمیوں کے ساتھ جنہوں نے عقبہ اولی کی رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ دین کی تعلیم اور قرآن پڑھانے کے لیے بھیجا تھا۔ انہوں نے جناب اسعد بن زرارہ کے یہاں سکونت کی تھی۔ مدینے میں انہیں معلم القرآن کہتے تھے، نیز روایت ہے کہ اُنہوں نے اوّل از ہمہ مدینے میں جمعے کے دن لوگوں کو جمع کیا تھا اور اسید بن حضیر اور سعد بن معاذ نے اِن کے ہاتھ پر اسلام کیا قبول کیا تھا۔ جو بہت بڑا اعزاز ہے۔
براء بن عازب سے منقول ہے کہ مصعب بن عمیر، جو بنو عبد الدار کے بھائی ہیں سب سے پہلے ہجرت کر کے آئے ان کے بعد عمرو بن ام مکتوم، عمار بن یاسر، سعد بن ابی وقاص، عبد اللہ بن مسعود اور حضرت بلال نے ہجرت کی۔ ان حضرات کے بعد حضرت عمر بھی پہنچ گئے۔ جناب مصعب غزوۂ بدر اور اُحد میں شریک تھے اور آخر الذکر معرکے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عَلَم ان کے پاس تھا۔ اسی غزوہ میں وہ ابن قمیۂ اللیشی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر چالیس برس یا تھوڑی بہت کم و بیش تھی۔ کہتے ہیں کہ مندرجۂ ذیل آیت ان کے اور ان کے احباب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ ’’رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ‘‘
محمد بن اسحاق نے صالح بن کیسان سے انہوں نے آلِ سعد کے کسی آدمی سے انہوں نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کی کہ مکے میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری زندگی حد درجہ تلخ تھی۔ جب ہمیں کوئی تکلیف پیش آتی۔ تو ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی تکلیف بیان کرتے اور اس طرح ہمیں تھوڑی بہت تسلّی ہوجاتی۔ مصعب بن عمیر مکے کے خوش پوش اور ناز و نعمت میں پلے ہوئے نوجوان تھے۔ بعد از قبولِ اسلام انہوں نے خود کو ایسی ایسی زبر دست مشقتوں میں ڈالا کہ ان کے جسم سے کھال یوں اُتر گئی جس طرح سانپ کی کینچلی اُتر جاتی ہے۔
واقدی کہتے ہیں کہ مصعب مکے کے حسین و جمیل اور دولت مند نوجوان تھے۔ ان کی والدہ انہیں نہایت عمدہ پوشاک پہناتی اور وہ بہترین خوشبو استعمال کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی ان کا ذکر کرتے فرماتے کہ مَیں نے مکے میں مصعب سے بڑھ کر اور کوئی آدمی، ناز و نعمت میں پلا ہوا اور سجا سجایا نہیں دیکھا۔
اسماعیل بن علی وغیرہ نے باسناد ہم محمد بن عیسی سے انہوں نے ہناد سے، انہوں نے یونس بن بکیر سے انہوں نے محمد بن اسحاق سے، انہوں نے یزید بن زیاد سے، انہوں نے محمد بن کعب القرظی سے روایت کی، کہ مجھ سے اس شخص نے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا بیان کیا کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ مصعب بن عمر زیارت کے لیے حاضر ہوئے۔ ان کے جسم پر ایک چھوٹی سی چادر تھی۔ جس میں چمڑے کے ٹکڑے لگے ہوئے تھے۔ جب حضور نے ان کی گزشتہ حالت کا موجودہ حالت سے مقابلہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم ایسے شخص کے بارے میں کیا کہو گے۔ جو صبح کے وقت کپڑوں کا ایک جوڑا زیب تن کرتا ہے اور شام کو دوسرا، اور اس کے آگے ایک پیالہ رکھا جاتا ہے اور پھر دوسرا اور تم اپنے گھروں پر یوں غلاف چڑھاتے تھے۔ جس طرح کعبے پر چڑھایا جاتا ہے۔ حاضرین نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ! ہمارے موجودہ حالات کئی لحاظ سے بہتر ہیں۔ اب ہمیں عبادت کے لیے کافی وقت مل جاتا ہے اور ہم کئی اُلجھنوں سے بچ جاتے ہیں۔ حضور اکرم نے فرمایا، بلا شُبہ تم آج کل بہتر حالت میں ہو۔
محمد بن عیسیٰ نے محمود بن غیلان سے، انہوں نے ابو احمد سے، انہوں نے ابو سفیان سے اُنہوں نے اعمش سے انہوں نے ابو وائل سے انہوں نے جناب سے روایت کی کہ اللہ کی رضا جوئی کے لیے ہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی۔ اور اس کے اجر کی توقع خدا سے رکھی۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جنہیں زندگی میں اس اجر سے کچھ نہ ملا اور وہ فوت ہوگئے۔ بعض ایسے لوگ تھے جن کے پھل پک گئے تھے۔ اور انہوں نے لوگوں کو تحفۃً دیے، مگر معصب ایسے آدم تھے، جو فوت ہوگئے اور ان کا سارا ترکہ ایک ایسی چادر تھی۔ جس سے اگر سر ڈھانپا جاتا تو پاؤں ننگے ہوجاتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ان کا سر چادر سے ڈھانپ دو اور پاؤں پر گھاس ڈال دو۔
ابو محمد بن ابی القاسم بن حافظ نے کتابتہً اپنے والد سے، انہوں نے احمد بن حسن سے انہوں نے ابو حسین بن ابو موسیٰ سے انہوں نے ابراہیم بن محمد سے انہوں نے محمد بن سفیان سے انہوں نے سعید بن رحمت سے روایت کی کہ مَیں نے ابن مبارک سے انہوں نے وہب بن مطر سے انہوں نے عبید بن عمیر سے سُنا کہ رسولِ کریم غزوۂ اُحد میں مصعب بن عمیر کی لاش کے پاس آ کھڑے ہوئے۔ وہ منہ کے بل زمین پر گرے پڑے تھے، جنگ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ان کے پاس تھا۔ حضور اکرم نے یہ آیت پڑھی: ’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُوَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا ‘‘ بلا شُبہ خدا کا رسول اس کا گواہ ہے کہ تم قیامت کے دن شہیدوں میں ہوگے۔ پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا، لوگو! آؤ ان کی زیارت کرو اور ان پر سلام بھیجو۔ مجھے خدا کی قسم، قیامت تک جو شخص بھی ان پر درود و سلام بھیجے گا۔ یہ اس کا جواب دیں گے انہوں نے صرف ایک بیٹی جس کا نام زینب تھا۔ اپنی یاد گار چھوڑی تینوں نے اس کا ذکر کیا ہے۔