شیخ عبدالوہاب متقی
شیخ عبدالوہاب متقی (تذکرہ / سوانح)
شیخ عبد الوہاب متقی بن شیخ ولی اللہ مندی: شہر مندو میں پیدا ہوئے،پھر آپ کے والد،اجد جواکابر اعیان ولایت مندو سے تھے بسبب حوادثات زمانہ کے ہندوستان میں آکر برہان پور میں سکونت پذیر ہوئے اور تھوڑے دنوں کے بعد آپ کو صغیر السن چھوڑ کر فوت ہوگئے آپو کو صغر سنی میں ہی علم اور تصف کا شوقت غالب ہوا اس لیے ملک گجرات اور دکھن دو سیلان اور سراندیپ میں سیر کر کے تحصیل علم میں مشغول ہوئے اور اکثر علماء وصلحاءومشائخ کی صحبت سے فیضیاب ہوکر بیس سال کی عمر میں ماہ جمادی الاولیٰ ۹۶۳ھ کو مکہ معظمہ میں پہنچے اور بعد ادائے حج کے شیخ علی متقی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بارہ سال تک ان کی صحبت میں رہ کر فقہ و حدیث وعلوم شرعیہ وغیرہ میں فاضل اجل اور قاموس اللغہ اور معارف فقرو تصوف میں عارف کامل اور اولیائے اکمل ہوئے اور بعد وفات شیخ علی متقی کے ان کے خلیفہ و جانشین ہوکر ۲۶تک مکہ معظمہ میں نشر علوم ظاہرہ و باطنی میں مصروف رہے اور ان چالیس سال میں کوئی حج آپ سے فوت نہیں ہوا اگر چہ بعد وفات پیر روشن ضمیر کے آپ واسطے ادائے حقوق ذوی الارحام کے گجرات میں تشریف لائے مگر اسی سال مکہ معظمہ میں مراجعت فرماکر اس سال کا حج ادا کرلیا اگر چہ آپ ہر ایک علوم شرعیہ و نقلیہ کو پڑھاتے تھے لیکن تفسیر و حدیث و تصوف کی برغبت تمام و خوشی مالاکلام تعلیم دیتے تھے اور جو شخص جس ملک کا ہوتا اس کو اسی کی زبان میں تعلیم کے وقت تقریر کر کے سمجھاتے شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے مکہ معطمہ میں جاکر آپ سے ہی حدیث کو پڑھا اور صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث کی سند حاصل کی اور نیز تصوف میں آپ کے مرید ہوئے اور خرقۂ خلافت حاصل کیا اور آپ کا حال بہ شرح و بسب کتاب زادا المتقین اور اخبار الاخیار میں لکھا چنانچہ زادالمتقین میں آپ کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک دن آپ کی مجلس میں امام شافعی کے مذہب میں بات شروع ہوئی کہ اکثر ان کا مذہب ظاہر حدیث کے مطابق معلوم ہوتا ہے۔ عرض کیا گیا کہ کئی دفعہ اس سے غلجان دل میں ہوتا ہے اور دل میں گزرتا ہے کہ اگر کوئی شخص شافعی المذہب ہوجائے تو بہتر ہے۔آپ نے فرمایا کہ بات اس طرح پر نہیں ہے کیونکہ حنفی کتب میں جو ولایت مارواء النہر اور ہندوستان میں مشہور ہیں، اکثر احکام کا اثبات قیاس اور دلائل عقلیہ سے کیا گیا ہے لیکن اس جگہ ایسی کتابیں تصنیف ہوئی ہیں کہ ہر ایک قول حنفی پر حدیث صحیح کو دوارد کر کے اس کا اثبات کیا گیا ہے بلکہ بعض علمائے حنفیہ نے اس بات کو التزام کیا ہے کہ ہر ایک مطلب پر آیت اور حدیث کو مالاتے ہیں یہاں تک کہ اس بات کے کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ شافعی ہی اصحاب رائے میں سے ہیں نہ حنفی چنانچہ اس دعوے کی تصدیق ابن ہمام کی شرح ہدایہ اور شمنی شرح مختصر وقایہ اور مواہب الرحمٰن اور اس کی شرح سے جو بعض علمائے مصر نے تصنیف کی ہیں مطالعہ کرنے سے نجوبی ہوتی ہے اور فرمایا کہ تم کو یہ شبہ ظاہراً مشکوٰۃ کی مطالعہ سے پیدا ہوا ہوگا کہ اکثر احادیث اس کی شافعی مذہب کے موافق ہیں کہ اس کے مؤلف نے اس کی احادیث کو موافق اپنی جستجو و تفحص کے جمع کیا ہے لیکن حنفی مزہب کے اثبات میں اور احادیث راجح تر جو کتابوں میں مزکور ہیں موجود ہیں پھر فرمایا کہ اعتقاد وصدق و حقانیت مذہب حنفی کا بہت بڑا ہے کینوکہ امام ابو حنیفہ ککو ایسے یارو اصحاب مہیا ہوئے ہیں جو کمال علم و فقاہت و حدیث و زہد و دیانت و تقدم و قرب زمانۂ سلف میں متصف تھے اور فرمایا کہ ان سالوں میں جو امام اعظم کے مناقب میں تالیف ہوئے ہیں،نظر کرنی چاہئےتاکہ حقیقت حال منکشف ہو پھر فرمایا کہ چونکہ امام ابو حنیفہ نہایت اعلم تھے اس لیے حاسد بہت رکھتے تھے جو ان پر طعن کرتے تھے پس بقول مشہور ہر کہ فاضل تر محسود تر پس یہ علامت امام ابو حنیفہ کی بزرگی کی ہے۔وفات آپ کی ۱۰۰۱ھ میں ہوئی،تاریخ وفات آپ کی ’’شیخ کامل‘‘ ہے۔
(حدائق الحنفیہ)