شیخ زین العابدین بن ابراہیم بن نجیم مصری: علامہ محقق،فہامہ مدقق، عالم اجل،فاضل اکمل تھے،شیخ شرف الدین بلقینی اور شیخ شہاب الدین شعبی اور شیخ امین الدین بن عبد العال اور ابو الفیض سلمی وغیرہ سے علوم پڑھے اور ان سے افتاء اور تدریس کی اجازت حاصل کی اور اپنے اشیاخ کے حین حیات ہی میں تدریس و افتاء کا کام شروع کر کے بہت لوگوں کو فائدہ پہنچایا اور شہرت پائی۔شرح کنز ا ور اشباہ والنظائر وغیرہ کتابیں تصنیف کیں جو علمائے حنفیہ کا ماخذ و مرجع ہوئیں،طریقت کا علم شیخ عارف باللہ سلیمان حصیری سے حل کیا،آپ کو حل مشکلات قوم میں بڑا ذوق تھا۔عارف شعرانی کا قول ہے کہ میں نے دس سال آپ کی مصاحبت کی مگر کوئی عیب کی بات آپ میں نہ دیکھی اور ۹۵۳ھ میں آپ کے ساتھ حج کیا سو آ پ کو اپنے جیران وغلمان کے حق میں جاتے آتے بڑا خلیق و شفیق پایا حالانکہ آدمی کے اخلاق سفر میں بدل جاتے ہیں۔
صاحب رد المحتار بیان کرتے ہیں کہ آپ نے علاوہ بحر الرائق شرح کنز الدقائق اور اشباہ والنظائر کے فتح الغفار شرح المنار اور مختصر تحریر الاصول المسمی بہ لب الاصول اور تعلیقات ہدایہ باب بیوع سے اور حاشیہ جامع الفصولین اور فتاویٰ اور چالیس رسالے متفرق مسائل میں تسنیف کیے۔آپ سے آپ کے بھائی شیخ عمر بن نجیم صاھب نہر اور محمد غزی صاحب تنویر الابصار نے اخذ کیا۔وفات آپ کی بقول سید احمد حموی اور مصنف رسائل زینیہ۸؍ماہ رجب ۱۰۷۰ھ[1] میں ہوئی۔ ’’قمرِ خلق‘‘ تاریخ وفات ہے۔
[1] ۔ولادت ۹۲۶ھ وفات ۹۷۰ھ ’’معجم المؤلفین‘‘ (مرتب)
(حدائق الحنفیہ)