حضرت شیخ عبد الغفور چشتی صابری
سال | مہینہ | تاریخ |
حضرت شیخ عبد الغفور چشتی صابری (تذکرہ / سوانح)
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت شیخ عبدالغفور چشتی صابری۔ لقب: سراج العارفین۔
تحصیل علم: ابتدا میں آپ سپاہی تھے، بعد میں حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی صحبت اختیار کی اور علوم ظاہری و باطنی سے مالامال ہوئے۔
بیعت و خلافت: سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ میں قطب العالم حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، اور عبادات و ریاضات کےبعد خرقہ خلافت سے مشرف ہوئے۔
سیرت وخصائص: سراج العارفین حضرت شیخ عبدالغفور چشتی صابری۔ آپ مشاہیر اولیائے کبار سے ہیں۔آپ ابتدائی زمانہ میں سپہ گری اور ملازمت کرتے تھے۔ایک دن بازار میں کھڑے تھے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں حضرت شیخ شرف الدین یحیٰ منیری کے مکتوبات کی ایک جلد لے کر کھڑا ہوا تھاکہ آپ نے اس سے کتاب لے کر مطالعہ شروع کیا اور اس میں دنیا اور اس کی مذمت کا بیان تھا۔اس کو پڑھتے ہی آپ کے دل سے دنیا کی محبت جاتی رہی اور سارا مال و اسباب راہ حق میں دے کر خلوت نشین ہوگئےاور یاد حق میں مشغول ہوگئے۔ایک رات خلوت میں بیٹھے تھے کہ سامنے کی دیوار پھٹ گئی اور وہاں سے ایک سوار نمودار ہو۔جس نے آپ سے کہا اسلام علیکم یا سراج العارفین! یہ کہہ کر دوسری طرف یعنی مشرق کی دیوار سے نکل گیا۔اسی طرح چالیس ابدال مقابل کی دیوار سے آئے اور سلام کر کے مشرق کی دیوار سے نکل گئے۔آخری آدمی نے کہا کہ آپ کیوں بیٹھے ہیں اٹھیں اور مردان خدا کا دامن پکڑیں۔کیونکہ یہ کام خود بخود نہیں ہوتا۔ دوسرے دن باہر نکل کر تلاش شیخ میں جابجا پھرنے لگے۔ادھر حضرت قطب العالم شیخ عبد القدوس گنگوہی علیہ الرحمۃ کو کشف باطن سے اس بات کا علم ہوگیااور ایک خط لکھ کر ایک درویش کو دیا۔فرمایا کہ فلاں مقام پر ایک شخص اس حلیہ کا تلاش شیخ میں پھر رہا ہے۔یہ خط اس کو پہنچا دو اور اسے ہمارے پاس لے آؤ۔ درویش خط لے کر اس علاقے میں گیا۔ اور آپ کو تلاش کرکے خط دے دیا۔ آپ نے جب خط کو دیکھا۔تو پہلا شعر یہ تھا:ترجمہ:تم نے خدا کی رحمت میں ہاتھ ڈالا ہے، اور غیر اللہ پر لات ماری ہے۔۔۔یہ پڑھتے ہی فورا حالت دگرگوں ہوگئی اور وہاں سے گنگوہ شریف کی جانب روانگی فرمائی۔جب شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے باطنی سکون میسر ہوا، دل کی دنیا بدل گئی، حضرت نے مجاہدات کرائے، اور خرقہ خلافت عطا فرما کر آپ کو اپنے وطن اعظم پور روانہ فرمادیا،اور یہ بھی وصیت فرمائی تمہیں نعمت باطنی کا ایک حصہ ایک مجذوب سے ملنا ہے۔ جو فرقہ ملامتیہ سے تعلق رکھتا ہے۔وہ قصبہ ھتنا ور میں رہتے ہیں۔ وہاں جاکر اپنا حصہ ان سے لے لینا۔
مجذوب کی خدمت میں حاضری: آپ جب اپنے گھر اعظم پور پہنچے تو چند روز قیام فرما کر حضرت شیخ کے فرمان کے مطابق قصبہ ھتنا ور تشریف لے گئے۔ اس مجذوب کو دیکھا کی صراحی ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں۔آپ کےدل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ شخص خلاف شرع کام کررہا ہے مجھے کیا نعمت دے گا۔چنانچہ وہاں سے روانہ ہو کر قصبہ کی جامع مسجد میں تشریف لے گے، اور جا کر سوگئے۔دل میں ارادہ یہ تھاکہ نماز کے بعد واپس اعظم پور چلا جاؤں گا۔ اتفاقاً نیند کی حالت میں آپ کو احتلام ہوگیا، اور غسل کی نیت سے غسل خانہ میں گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہر گھڑا شراب سے لبریز ہے اس کے بعد دوسری مسجد میں گئے وہاں بھی تمام مٹکوں اور گھڑوں میں پانی کی بجائے شراب ہی دیکھی۔اس کےبعد دریائے گنگا پر گئے تو وہاں بھی شراب کے علاوہ کچھ نہ پایا۔اس لئے آپ کو یقین ہوگیا کہ یہ سب کچھ اس مجذوب کے تصرف کا نتیجہ ہے۔ناچارا اپنے وساوس سے تائب ہو کر ان کی خدمت میں پہنچ گئے۔ انہوں نے دیکھتے ہی آپ سے فرمایا اگرچہ ہم لوگ ملامتی ہیں لیکن تم عالم ہو تمہیں حدیث نبوی: ظن المومنین خیرا (مومن کا گمان نیک ہونا چاہیے)پر عمل کرنا چاہیے اور ہرشخص پر نیک گمان کرنا چاہیے۔تمہیں یاد نہیں کہ تماہرے پیر دستگیر حضرت قطب العالم کا فرمان کیا تھا۔ آپ نے نہایت ہی عاجزی سے عرض کیا حضرت مجھ سے خطا ہوگئی ہے مجھے معاف فرمادیں۔ مجذوب نے ازراہ کرم آپ پر شفقت فرمائی۔ اور وہ نعمت جوان کے پاس باطنی طور پر تھی۔وہ امانت آپ کے سپرد کردی۔اس کے بعد آپ واپس اعظم پور آکر عبادت و ریاضت و مجاہدہ اور تربیت مریدین میں مشغول ہوگئے۔ آپ کے حسن تربیت سے بہت سے لوگ مرتبہ تکمیل و ارشاد کو پہنچے۔
تاریخ وصال: آپ کا وصال باکمال دسویں صدی ہجری کو اعظم پورا انڈیا میں ہوا۔مزار پُر انوار بھی اعظم پور میں مرجع خاص و عام ہے۔
ماخذ ومراجع:
انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام جلد3۔