حضرت شیخ عبدالجلیل الٰہ آبادی
حضرت شیخ عبدالجلیل الٰہ آبادی (تذکرہ / سوانح)
حضرت شیخ عبدالجلیل الٰہ آبادی بھی جو حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ کے اکابر خلفائیں سے بھی آنحضرتﷺ کے باطنی حکم سے آپ کے مرید ہوئے۔ واقعہ اس طرح ہے کہ شیخ عبدالجلیل دہلی میں ملک العلماء حضرت شیخ عبدالحق قدس سرہٗ کے ہاں تحصیل علوم اسلامیہ مشغول تھے اور فراغت ہونے والی تھی کہ ایک رات خواب میں اپنے آپکو ایک وسیع نورانی صحرا میں پایا وہاں یہ دیکھا کہ آنحضرتﷺ ایک ابلق گھوڑے پر سوا رہیں جب انہوں نے پابوسی کا شرف حاصل کیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ علم قیل وقال کسی کام نہیں آتا اس وقت حضرت شیخ محمد صادق کی صورت انکو دکھائی گئی اور فرمانہوا کہ گنگوہ میں اس شخص کے پاس جاؤ کیونکہ میری امت کے اکابر اولیائیں سے ہیں۔ ان سے بیعت کرلو اور علم قیل وقال کو چھوڑ کر حال میں مشغول ہوجاؤ۔ جب شیخ عبدالجلیل بیدار ہوئے تو فوراً دہلی سے گنگوہ پہنچے اور حضرت شیخ محمد صادق سے بیعت کرلی۔ کچھ عرصہ ریاضت و مجاہد میں مصروف رہنے کے بعد آپکو فتح باب نصیب ہوئی اور حضرت اقدس نے انکو خلافت دے کر الٰہ آباد بھیج دیا۔ وہاں ایک جہان آپ کے فیض سے مستفیض ہوا اور کئی لوگ مرتبہ رشد وتکمیل کو پہنچے۔ آپ بڑے صاحب کشف و کرامت تھے اور آپکی خوراق کا کوئی شمار نہیں ہے۔
ایک شخص کا انکار اور نابینا ہوجانا
ایک دفعہ ایک شخص نے آپکی خدمت میں آکر شکایت کی کہ میں سارے جہان میں پھرا ہوں لیکن کوئی صاحب کمال نہیں دیکھا۔ جہاں جاؤ۔ جھوٹےپیر گدیوں پر بیٹھے دکانداری اور خلق خدا کے ساتھ ٹھگی کر رہے ہیں۔ شیخ عبدالجلیل اس وقت مرتبہ اطلاق میں غرق تھے آپکی غیرت جوش میں آئی اور آنکھیں کھول کر فرمایا کہ اب تک نہیں دیکھا اب اگر اندھے نہیں ہوتو دیکھو۔ یہ کہنا تھا کہ وہ نابینا ہوگیا۔ جب اس نے آپکی یہ کرامت دیکھی تو پاؤں پر گِر پڑا اور تائب ہوکر بیعت سے مشرف ہوا۔
سیلاب میں بیٹھے سلامت رہے
روایت ہے کہ جب شیخ عبدالجلیل حضرت شیخ محمد صادق قدس سرہٗ سے خلافت حاصل کر کے الہ آباد میں سکونت پذیر ہوئے تو مدت کے بعد وہاں ایک بہت بڑا سیلاب آیا جس سے اکثر اہل شہر غرق ہوگئے اور بعض وہاں سے بھاگ گئے اور جان بچائی لیکن آپ اپنے گھر میں بیٹھے رہے حالانکہ طوفان کا بہت زور تھا اور پانی آپکے گھر کے صحن میں داخل ہوچکا تھا حاکمِ شہر نے آپکے پاس کشتیاں بھیجیں اور کہلا بھیجا کہ آپ اپنے اہل وعیال اور سامان کے ساتھ نکل آئیں لیکن آپ نے یہ بات قبول نہ کی اور حاکم کو کہلا بھیجا کہ اگر خدا تعالیٰ نے ہماری محافظت فرمائی تو اسی جگہ صحیح وسلامت بیٹھے رہینگے اور اگر ہماری موت کا بہار نہ یہی ہے تو ان کشتوں سے کچھ نہ بنے گا۔ کہتے ہیں کہ پانی آپکے صحن بلکہ آپکی چارپائی تک پہنچ کر اتر نا شروع ہوگیا اور ایک دو دن میں ختم ہوگیا۔ نہ آپ کے گھر کو کوئی نقصان پہنچانہ متعلقین اور سامان کو۔
چور کا نابینا ہوجانا
ایک رات ایک چور آپکے گھر میں داخل ہوا۔ اس وقت آپ ایک کونے میں بیٹھے شغل باطن میں مشغول تھے جونہی چور گھر کے اندر داخل ہوا اندھا ہوگیا۔ اس سے اس نے گھبراکر آواز بلند کی کہ اس گھر میں کوئی عرف ہے کہ جسکی نظر قہر سے میری بینائئی چلی گئی ہے اب میں عہد کرتا ہوں کہ اگر میری آنکھیں مجھے واپس مل جا ئیں تو چوری چھوڑ دونگا اور ساری عمر طاعت و عبادت میں گذار دونگا۔ آپ نے فرمایا چونکہ تو نے صدقِ دل سے توبہ کی ہے تجھے بینائی مل جائیگی۔ یہ کہنا تھا کہ اسکی آنکھیں روشن ہوگئیں اور باہر چلا گیا۔ صبح کے وقت اپنے بال بچوں اور مال و متاع کے ساتھ آیا اور حضرت اقدس سے شرف بیعت حاصل کیا اور شغل باطن میں مشغول ہوگیا۔ اس وقت سے شیخ عبدالجلیل کی ولایت ظاہر ہوگئی۔
آپ نے اذکار واشغال کے بیان میں ایک رسالہ لکھا ہے آپکا کمال اسی رسالہ نیز آپکے ایک عربی قصیدہ سے ہوسکتا ہے جو سراسر عشق و مستی میں ڈوبا ہوا ہے جب آپکا آخری وقت آیا تو مشائخ چشت کی کی امانت اپنے فرزند عزیز غلام محی الدین کے سپرد کی اور عالم بقا کی طرف رحلت کر گئے۔ آپکا مزار الٰہ آباد میں مرجع خلائق ہے اور حاجت روائے خاص وعام ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
(قتباس الانوار)