شیخ عبد الرحمان قادری نوشاہی
شیخ عبد الرحمان قادری نوشاہی (تذکرہ / سوانح)
حضرت حاجی محمّد نوشاہ گنج بخش کے کبار خلیفوں سے تھے۔ آپ کی ذات پر مرشد کی توجہ و التفات بے حد و نہایت تھی جیسی کسی دوسرے خلیفے کے حال پر نہ تھی۔ یہی سبب تھا کہ آپ عرفان و حقیقت شناسی کے مقامِ اعلیٰ پر فائز ہُوئے۔ مرشد کو آپ پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے مریدوں کو تہذیب و تکمیل کے لیے آپ کے سپرد کردیتے تھے اور یہ سلسلہ حضرت نوشاہ گنج بخش کی وفات کے بعد بھی جاری رہا کہ حضرت نوشاہ عالی جاہ کے بہت سارے خلیفے شیخ عبدالرحمٰان کی خدمت سے تکمیل کو پہنچے۔ حتّٰی کہ مولانا حافظ برخوردار کے فرزندوں اور حضرت نوشاہ کے پوتوں نے بھی آپ ہی کی زیرِ نگرانی تربیّت و تکمیل پائی۔ جو شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا، ناکام نہیں رہتا تھا۔ کمالِ علم و فضل کے ساتھ آپ پر غلبۂ صمدیت بھی بے انتہا تھا۔ کئی کئی روز بغیر کھائے پیے گزر جاتے تھے۔ صاحبِ تذکرۂ نوشاہی لکھتے ہیں کہ ایک روز میں نے حاضرِ خدمت ہوکر طعام نہ کھانے کی وجہ دریافت کی۔ فرمایا: مجھے طعام کی طرف رغبت ہی نہیں ہوتی۔ اگر کسی وقت کوئی لقمہ منہ میں ڈال بھی لیتا ہُوں تو وُہ حلق سے نیچے نہیں اُترتا۔
نقل ہے ایک روز حضرت نوشہ گنج بخش موضع بِھڑی ضلع گوجرانوالہ کے پاس سے گزر رہے تھے، وہاں رات رہے۔ اس وقت آپ کی عمر پانچ برس سے زیادہ نہ تھی۔ حضرت نوشہ کی نضرِ کیمیا اثر ایسی پڑی کہ بیخووی اور جذب و مستی اسی عمر میں پیدا ہوگئی۔ اپنے گاؤں میں رحمان دیوانہ مشہور ہوگئے۔ یہ حالت دیکھ کر ان کے والدین انہیں حضرت نوشاہ کی خدمت میں لے آئے۔ آپ نے نہایت مسرّت کے ساتھ انہیں اپنی نگرانی و سرپرستی اور غلامی لے کر ان کے والدین کو رخصت کردیا اور انہیں اپنی خدمت میں رکھ کر ان کی ظاہری و باطنی تربیت بہ حدِّ کمال کی۔ روزانہ کام کے طور پر ان کے سپرد یہ خدمت ہوئی کہ کھیتوں میں کام کرنے والے مزارعین کو کھانا پہنچایا کریں۔ چنانچہ آپ ہر روز مزارعین کا کھانا سر پر اٹھا کر کھیتوں میں لے کر جاتے اور اپنے حصّے کا جو کھانا مطبخ سے لیتے وہ فقراء اور اہل حاجت کو کھلادیتے۔ چالیس روز اسی طرح گئے اور ایک لقمہ بھی نہ کھایا۔ حضرت نوشاہ کو بہ نورِ باطن یہ حال معلوم ہوگیا۔ آپ پر بڑے خوش ہوئے اور آپ کی ذات پر بے حد توجہ و عنایت فرمائی۔ اپنے سامنے بلا کر کھانا کھلایا اور تمام تکلفات سے مستغنی کردیا۔ عبادت و ریاضت میں باکمال تھے۔ مجاہدہ یہاں تک بڑھا ہُوا تھا کہ تمام رات بہ حد حبسِ دم ذکرِ خفی کرتے اور بعض اوقات معکوس لٹک کر رات بھر ذکر میں مشغول رہتے۔ خلوت اختیار کرتے تو قبر کُھدوا کر اس میں بیٹھ جاتے اور اُوپر سے بند کرادیتے۔ چالیس چالیس روز ایسی حالت میں مراقبہ اور ذکر و فکر میں محور رہتے۔ اس ریاضت و مجاہدہ میں کے ساتھ ذوقِ سماع و وجد بھی بے اندازہ تھا۔ حالتِ سماع و وجد میں بے خودی و مدہوشی کا یہ عالم ہوجاتا تھا کہ لوگوں کو گمانِ مرگ ہونے لگتا تھا۔ اور کبھی اپنے آپ کو بیلوں کے پیچھے باندھ کر زمین پر گھسیٹتے جاتے۔ گرمیوں کے موسم میں سُورج کی دُھوپ میں بیٹھتے اور سردیوں میں برہنہ تن رات کو جنگل میں جاکر بیٹھتے اور کبھی سردیوں کے موسم میں دریا میں کھڑے ہوکر ذکرِ حق میں مشغول ہوتے۔ آپ کی گرمیِ ذکر سے دریا کا پانی گرم ہوجاتا، جس شخص پر نگاہِ شفقت ڈالتے وُہ صاحبِ کشف و کرامت ہوجاتا۔
صاحبِ کشف ِصحیح اور مستجاب الدعوات تھے۔ نقل ہے ایک روز آپ اپنے ایک خادم شیخ سعدی[1] پر بے حد مہربان ہو کر فرمانے لگے: شیخ سعدی ہم نے اللہ تعالیٰ سے تیرے لیے یہ چاہا ہے کہ جس مریض پر تیری نظر پڑے وہ صحبت یاب ہو جائے۔ جس مردہ کی طرف تُو متوجہ ہو وہ زندہ ہوجائے اور جس فاسق و فاجر پر تیری نظر پڑے وُہ ولئِ کامل ہوجائے۔ بارگاہِ خداوندی میں آپ کی یہ دُعا قبول ہوگئی کہ ایک روز ایک عورت اپنے خوردسال بچّے کو جو مریض تھا اپنے ساتھ لے کر گھر سے نکلی کہ شیخ سعدی سے اس کی صحبت کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا کرائے۔ اتفاقاً وُہ بچّہ راستے ہی میں وفات پاگیا۔ وُہ عورت بچّے کو اسی حالت میں روتی پیٹتی لے کر شیخ سعدی کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپ نے تسلّی و تشفّی دی اور بچّے کی طرف متوجہ ہُوئے خداوند تعالیٰ نے اُسے زندگی بخش دی۔ وہ عورت بھی خوش ہُوئی اور چاندی کا ایک زیور شیخ سعدی کی نذر گزارا ۔ شیخ سعدی وہ زیور مرشد کے گھر لے گئے اور ان کی صاحبزادی کو پہنادیا۔ جب اس کی اطلاع آپ کو ہوئی تو شیخ سعدی کو بلا کر بڑا اظہارِ ناراضی فرمایا اور کہا: سعدی تُونے اس عورت کےبچّے کو زندہ کرکے اُجرت لے لی تُو اس بزرگی کے لائق ہی نہیں ہے۔ آپ کے اس ارشاد کے بعد شیخ سعدی سے یہ تصرف جاتا رہا۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے اخذِ فیض کیا اور آپ تادمِ زیست ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ حضرت عبدالرحمٰن نے ۱۱۵۳ھ میں وفات پائی۔ مزار موضع بِھڑی شاہ رحمان ضلع گوجرانوالہ میں زیارت گاہِ خلق ہے۔
آپ کے بھائی شیخ الہ داد آپ کے ہی مرید[2] و خلیفہ تھے۔ ذوق و شوق کمال رکھتے تھے۔ آپ کے جوار میں ہی مدفون ہیں، مخفی نہ رہے کہ خاندان عالیہ نوشاہیہ میں سب لوگ صاحب حال اور ذوق و سماع ہیں۔ جماعتِ عالمگیر پاک رحمانی میں حد سے زیادہ مستی ہے۔ جس شخص کو وجد کی حالت ہوتی ہے، اس کے پاؤں میں رسّہ ڈال کلر اُلٹا لٹکا دیتے ہیں اور اگر اس عمل میں ہوش میں نہ آئے تو پاؤں میں رسّہ ڈال کر زمین پر کھینچتے ہیں اور پیر محمد سچ یار کی جماعت بھی اگرچہ صاحبِ حالت اور سماع ہیں مگر اس قدر مستی نہیں رکھتے۔
چوں جناب عبدِ رحماں شیخِ پاک |
|
شد بہ جنّت از جہاں بے قال و قیل |
[1]۔ سعدی نام نہیں بلکہ صحیح نام شادی ہے جو کیلا نوالہ کے باشندہ تھے (تذکرہ نوشاہی)۔
[2]۔ یہ شیخ الہ داد اپنے بھائی شیخ عبدالرحمٰن کے مُرید نہ تھے بلکہ حضرت نوشاہ گنج بخش کے مرید و خلیفہ تھے۔ (رسالہ احمد بیگ۔ تذکرہ نوشاہی)۔
[3]۔ شیخ عبدالرحمٰن کا صحیح سال وفات ۱۱۱۵ھ ہے۔ (ملاحظہ ہو تذکرہ شاہ عبدالرحمٰن پاک مصنّفہ سیّد شرافت نوشاہی اور شریف التواریخ کی دوسری جلد موسوم بہ طبقات النوشاہیہ طبقہ پنجم۔