شیخ ابوبکر کتانی
شیخ ابوبکر کتانی (تذکرہ / سوانح)
اسم گرامی محمد بن علی جعفر تھا بغداد کے رہنے والے تھے اور حضرت جنید بغدادی کے مریدوں میں سے تھے ہمہ صفت موصوف تھے زہد و تقویٰ میں معروف یگانہ تھے، مشائخ کبار میں مانے جاتے تھے سالہا سال حرم محترم میں رہے، آپ نے چراغ حرم کا خطاب پایا، ساری رات عبادت الٰہی میں مشغول رہتے، طواف کعبہ کے دوران بارہ ہزار بار قرآن پاک ختم کیا کعبۃ اللہ کے ناؤداں کے نیچے بیٹھ کر تیس سال عبادت کی ان تیس سالوں میں ایک بار بھی زمین پر پشت لگاکر نہ سوئے۔
شیخ ابوالحسن مزین فرماے ہیں میں ایک بار سفر حجاز پر تھا زاد راہ کے بغیر ہی ایک صحرا میں فروکش ہوا میرے پاس نہ پانی تھا نہ سواری چلتے چلتے ایک چشمہ پر رکا، بیٹھے بیٹھے سوچنے لگا یہ سارا سفر بغیر زادراہ اور سواری کے گزرا ہے حوض کے کنارے سے مجھے ایک گرجدار آواز آئی ابوالحسن ان بیہودہ خیالوں سے نفس کو خوش نہ کرو، میں نے دیکھا حضرت ابوبکر کتانی تھے میں اسی وقت اللہ کی توفیق پر ایمان لایا۔
حضرت ابوبکر کتانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک بار میرے دل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں غبار تھا میں نے پڑھا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے متعلق لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار فرمایا تھا آپ اتنے طاقتور اور بہادر تھے، مانا کے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے غلط طور پر دعویٰ خلافت کردیا تھا مگر حضرت علی کو چاہیے تھا کہ صحابہ رسول کو خونریزی سے بچانے کے لیے معاویہ کو خلافت دے دیتے، جن دنوں میں صفا و مروا کے درمیان والے مکان میں رہتا تھا ، ایک رات خواب میں خواجہ عرب و عجم حضرتا ابوبکر اور عمر، عثمان و علی رضی اللہ علیہم کے ساتھ میرے غریب خانہ میں جلوہ فرما ہوئے، مجھے بغل میں لے لیا، اور مجھے حضرت ابوبکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ کون ہیں، میں نے عرض کی یا رسول اللہ میں آپ پر قربان! یہ آپ کے ابوبکر ہیں، پھر حضرت عمر کی طرف اشارہ فرمایا پھر حضرت عثمان کی طرف میں ہر بار جواب دیتا رہا آخر میں آپ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف توجہ فرماکر مجھے پوچھا چونکہ حضرت علی کے بارے میں میرے دل میں کدورت تھی میں جواب دینے میں جھجھک گیا اور میری آنکھیں ندامت سے اٹھ نہ سکیں، حضور نے بڑھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مجھے بغل گیر فرمایا، حضرت علی فرماتے ہیں معاویہ کی جنگ کے وقت میں لَا سیف الا ذوالفقار کا مظہر تھا مگر میرے نورِ نظر حضرت حسن نے لا فتٰی الا علی کا مظہر بن کر جنگ و جدال سے تلوار کھینچ لی، میرے اس بیٹے نے اپنا حق قربان کرکے معاویہ کو موقعہ دیا کہ وہ بھی خون ریزی سے ہاتھ روک لے، اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین صحابہ کو لے کر تشریف لے گئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور کوہ بوقبیس پر لے گئے، ہم دونوں مل کر وہاں پہنچے اور وہاں سے کعبۃ اللہ کا نظارہ کرتے رہے، میں بیدار ہوا تو کوہ بوقبیس پر تھا، اب میرے دل پر ذرہ بھر غبار نہ رہا، اور حضرت علی سے جتنی کدورت تھی دل سے دُور ہوگئی، رضی اللہ عنہ۔
ایک دن ایک بوڑھا بنی شیبہ سے آیا اور کہنے لگا، ابوبکر آپ مقام ابراہیم پر کیوں نہیں جاتے وہاں ایک عالم دین نے مجلسِ حدیث برپا کی ہوئی ہے اور مختلف روایات کو بیان کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا اے بزرگ آپ جو کچھ مجھے استاد سے سنانا چاہتے ہیں میں یہاں بیٹھے بے استاد ہی سن رہا ہوں، اس نے کہا کس طرح، حضرت ابوبکر نے کہا حدیثی قلبی عن ربی، آپ نے فرمایا: اس پر کیا دلیل ہے، آپ نے فرمایا: دلیل اس کی یہ ہے کہ آپ خضر ہیں، حضرت خضر نے حیرانی سے پوچھا آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آج تک تمام دلیلوں سے مجھے متعارف کرادیا ہے، یہ نئے شخص ضرور حضرت خضر ہی ہوں گے۔
ایک بار حضرت ابوبکر نماز ادا کر رہے تھے، ایک شخص اندر داخل ہوا، اور آپ کی چادر کندھوں سے اٹھائی، اور بازار کی طرف بھاگ گیا، اس کی یہ خواہش تھی کہ اب چادر کو منڈی میں لے جاکر فروخت کردے، ابھی وہ بازار میں نہ پہنچا تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ شل ہو گئے وہ واپس آیا تو شیخ کو پھر نماز میں مشغول پایا چادر اسی طرح آپ کے کندھوں پر ڈال دی اور پاس ہی بیٹھ گیا آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا تمہیں کیا ہوا، یہاں پریشان بیٹھے ہوئے ہو، اس چور نے بتایا کہ اس کے ساتھ یہ کیفیت ہوئی ہے، آپ نے ہاتھ اٹھاکر فرمایا: اے اللہ اس شخص نے میری چادر مجھے واپس دے دی ہے، تو بھی اس کے بازو واپس دے دے اسی وقت اس کے دونوں ہاتھ ٹھیک ہوگئے۔
حضرت شیخ ابوبکر کو کوئی بار سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت خواب میں ہوئی اور اپنے سوالات کا جواب پاتے، ایک رات آپ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکاون بار خواب میں دیکھا، آپ کی وفات ۳۲۲ھ میں ہوئی، آپ کا مزار مبارک کعبۃ اللہ میں ہے۔
وائے صدوائے کہ از دیدہ ظاہر بنیاں |
|
صورت گنج نہاں گشت محمد بوبکر |
(خزینۃ الاصفیاء)