شیخ ابو اسحاق شہر بارگازرونی
شیخ ابو اسحاق شہر بارگازرونی (تذکرہ / سوانح)
اسم گرامی ابراہیم اور اصل وطن فارس تھا آپ کا روحانی تعلق حضرت شیخ ابو حسین علی بن محمد فیروز آبادی سے تھا۔ آپ کے مناقب و فضائل احاطۂ تحریر میں نہیں آسکتے صاحب کرامت اور خوارق بزرگ تھے زہدو تقویٰ ریاضت و عبادت میں بے مثال تھے کملات ظاہری وباطنی کے مالک تھے جس دن حضرت شیخ پیدا ہوئے لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے گھر سے نور کا ایک ستون آسمان تک بلند ہوا اس نور کی شعاعیں چارو انگ عالم میں پھیل گئیں۔
جب آپ سن بلوغ اور عمر شعور کو پہنچے الٰہی نے اپنی طرف راغب کیا اور آپ کے دل میں تین بزرگوں کی ارادت پیدا ہوئی ان میں ایک تو عبداللہ خفیف تھے دوسرے حارث محاسبی تھے اور تیسرے ابو عمرو تھے آپ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ خدایا مجھے آگاہ فرمادے کہ مجھے کس بزرگ سے رجوع کرنا چاہیے آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ابو عبداللہ خفیف کے گھر سے کتابوں کا ایک اونٹ لاد کر لارہا ہے صبح کے وقت آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مجھے حضرت ابوعبداللہ سے فیضان حاصل ہوگا اس دن شیخ حسین اکابر تشریف لائے اور شیخ ابوعبداللہ خفیف کے گھر سے کتابیں لاکر آپ سے سامنے رکھ دیں چنانچہ شیخ ان کی خدمت میں حاضرہوئے۔
حضرت شیخ اسحاق ہر روز لذیذ کھانا پکاتے اور درویشوں میں تقسیم کردیا کرتے تھے ایک دن آپ کے باپ نے آپ کو فرمایا کہ بیٹا! تمہیں اتنا خرچ کرنے کی ہمت نہیں ہے کہ ہر مسافر آئے اور تم اس کی مہمانی کرتے رہو۔ ایک دن ایسا آئے گا کہ تم اس کام سے تنگ آجاؤ گے آپ نے والد کی بات سنی اور خاموش رہے اتفاقاً اسی دن مسافروں کی ایک بہت بڑی جماعت آپہنچی کسی کو خبر نہ تھی رمضان کا مہینہ تھا شام کا وقت تھا سورج غروب ہورہا تھا اچانک ایک آدمی اندر آیا اور بہت سی روٹیاں دے گیا ساتھ ہی انجیر اور باداموں کا حلوہ لایا اور آپ کے سامنے رکھا آپ نے فرمایا اسے درویشوں میں تقسیم کردو۔ والد محترم نے دیکھا تو حیران رہ گئے اور آئندہ کے لیے اس ضمن میں کبھی نصیحت نہ کی۔
میرابوالفضل دیلمی عام طور پر شراب کے نشے میں دھت رہا کرتے تھے ایک دن حضرت شیخ کی زیارت کو حاضر ہوئے اور شراب سے توبہ کرلی اور کہنے لگا حضرت! میں فخر الملک کا وزیر ندیم ہوں وہ شراب پیتا ہے ایسا نہ ہو کہ مجھے دوبارہ شراب کی ترغیب ملے اور توبہ ٹوٹ جائے آپ نے فرمایا توبہ کرلو اور اگر وزیر پھر تمہیں اس بات پر آمادہ کرے تو مجھے یاد کرلینا ابوالفضل نے توبہ کرلی اور چلا گیا ایک دن وہ دوسرے شرابیوں کے مجمع میں موجود تھا وزیر نے اسے بھی شراب پینے کو کہا مگر اس نے اپنی توبہ کا تذکرہ کردیا لیکن وزیر نے پھر اصرار کیا ابوالفضل نے تنگ آکر اپنے میر کو یاد کیا اسی وقت ایک بدحواس بلّی مجلس میں آکودی اور لوٹتے لوٹتے تمام شراب کے جام اور بوتلیں توڑتی گئی۔ شراب زمین پر گر گیا اور مجلس کا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ابوالفضل اس کرامت کو دیکھ کر بڑا رویا وزیر نے اسے روتا دیکھ کر کہا کیا بات ہے؟ اس نے وزیر کو سارا واقعہ سنا دیا اس نے کہا تم اپنی توبہ پر قائم رہو اور کسی کی پروانہ کرو۔
ایک دن حضرت شیخ کی مجلس میں دوشخص جو باپ بیٹا تھے حاضر ہوئے انہوں نے توبہ کرنا چاہی آپ نے فرمایا توبہ اس صورت میں قبول کی جائے گی کہ تم پھر توڑنے کانام نہ لو ورنہ دین و دنیا کی عقوبت میں پھنس جاؤ گے انہوں نے اقرار کرلیا کہ ہم کبھی توبہ نہیں توڑیں گے توبہ کرلی میں چند دنوں بعد پھر توبہ توڑدی ایک دن دونوں آگ جلارہے تھے آگ کا ایک شعلہ اٹھا دونوں کو جلاکر خاکستر بناگیا۔
حضرت شیخ کے بدن مبارک سے اتنی خوشبو آیا کرتی تھی کہ عنبر اور کستوری کی خوشبو اس کے سامنے ہیچ تھی جس بازار یا گلی سے گزرتے ایک عرصہ تک مہک آتی رہتی لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کے ہاتھ پر چوبیس ہزار لوگوں نے توبہ کی۔ اور اسلام قبول کیا ایک لاکھ مسلمانوں عام گناہوں سے تائب ہوئے اور حضرت کے حلقۂ ارادت میں آئے۔ آپ کے پاس ایک رجسٹر تھا جس میں توبہ کرنے والے مرید احباب قریبی اور دوسرے آشناؤں کے نام لکھے ہوئے تھے۔ جب آپ کا وقت وفات قریب آیا تو آپ نے فرمایا یہ رجسٹر میرے ساتھ دفن کردیا جائے لوگوں نے ایسا ہی کیا آپ کی وفات کے بعد کئی لوگوں نے آپ کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا گزری آپ نے بتایا سب سے بڑی مہربانی تو مجھ پر یہ ہوئی کہ جتنے لوگوں کے نام میرے حساب میں درج تھے سب کو بخش دیا گیا دوسرے جو شخص کسی دینی حاجت کے لیے میری قبر پر آئے گا وہ اپنی مراد پائے گا۔
بادشاہ کا ایک وزیر آپ کا بے حد عقیدت مند تھا وہ کوشش کرتا کہ شیخ اس سے کچھ قبول فرمالیں مگر آپ اس سے کچھ نہ لیتے ایک دن اس وزیر نے کہا آپ نے میری کوئی چیز قبول نہیں کی آج آپ کے لیے چند غلام خرید کر آزاد کردئیے ہیں اور ان کا ثواب آپ کو دے دیا ہے آپ نے فرمایا میرے مذہب میں بندوں کو آزاد کرنا درست نہیں بلکہ آزاد لوگوں کو اللہ کا غلام (بندہ) بنانا فرض ہے۔
کہتے ہیں حضرت شیخ ابواسحاق گارزونی حضرت علی ہجویری لاہوری کے ہمعصر تھے لیکن دونوں بزرگوں کی باہمی ملاقات کا ذکر کہیں نہیں ملتا آپ کی وفات ۴۲۶ھ ہے۔
سوئے جنت شد چو ازدار فنا |
|
شاہ ابو اسحاق محبوب جہاں |
|
||
|
سالک عالی حبیب اصفیا اہل اللہ قطب الاصفیا سے بھی تواریخ وفات نکلتی ہے۔ ۴۲۶ھ ۴۲۶ھ
(خزینۃ الاصفیاء)