کنیت ابونصر والد کا اسم گرامی ابوالحسن تھا جام کے نزدیک موضع ناحق میں پیدا ہوئے مقتدائے اہل طریقت تھے پھر یگانہ زمانہ بنے قطب العہد اور غوث الوقت مشہور ہوئے آپ حریر بن عبداللہ الجیلی کی اولاد میں سے تھے جنہیں حضرت عمر ابن الخطاب نے یوسفِ اُمت محمّدیہ کہا تھا۔
حضرت شیخ احمد اول عمر میں اُمیّ محض تھے بائیس سال گزرے تو اللہ کی رحمت نے علم کی روشنی سے نوازا۔ پہاڑوں میں گوشہ نشین ہوئے ریاضت اور مجاہدہ میں پورے تیرہ سال گزار دئیے چالیس سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ کے الہام کی روشنی میں مخلوق خدا کی راہنمائی میں نکلے علم الدّنی کے ابواب کھل گئے آپ نے توحید اسرار اور حکمت میں تین سو کتابیں لکھیں یہ کتابیں وقت کے عارفین اور حکماء کے لیے مطالعہ کا ذریعہ بنیں اسرار تصوف میں عمدہ اشعار کہتے گفتگو اور تحریر آیات قرآنی اور احادیث کے حوالے سے پُر ہوتی تھی اللہ تعالیٰ نے کثیرالادلاد کیا تھا آپ کے بیالیس(۴۲) لڑکے تھے آپ کی زندگی میں ان لڑکوں کے ہاں (۳۹) لڑکے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں حضرت شیخ کی وفات کے وقت چودہ لڑکے اور تین لڑکیاں موجود تھیں یہ چودہ بیٹے صاحب علم اور صاحب تصنیف تھے پھر مشائخ کی صف میں تھے اور صاحب کرامات تھے۔
حضرت شیخ احمد جام کی عمر ساٹھ سال تھی تو فرمایا کرتے تھے کہ اب تک میرے ہاتھ پر ایسی ہزار لوگوں نے توبہ کی ہے آپ کے صاحبزادے شیخ ظہیرالدین عیسیٰ اپنی کتاب رموزالحقائق میں لکھتے ہیں کہ میرے والد کے اپنی عمر کے آخرین حصہ میں ساٹھ ہزار لوگوں نے توبہ کی تھی۔
شیخ ابوسعید ابوالخیر کے پاس ایک ایسا فرقہ تھا جو سیّدنا ابوبکر صدیق نے آپ کو منتقل ہوا تھا۔ آخر کار یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ فرقہ حضرت احمد جام کو منتقل کیاجائے چنانچہ حضرت ابوسعید ابوالخیر نے اپنے بیٹے کو وصیّت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد ایک جوان رعنا سروقد۔ ارزق چشم احمد جام نامی آئے گا یہ خرقہ اسے دے دیا جائے کیونکہ اسی کی امانت ہے۔ چندسال اسی طرح گزرے شیخ ابوطاہر نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے والد ابوسعید ابوالخیر دوستوں کا ایک مجمع لیے بڑی تیزی سے تشریف لا رہے ہیں پوچھا کہ اس قدر کیوں ہے آپ نے فرمایا قطب الاولیاء آرہے ہیں ہم لوگ ان کے استقبال کو جارہے ہیں دوسرے دن حضرت شیخ طاہر اپنی خانقاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک نوجوان ان اوصاف کے ساتھ جو والد محترم نے بیان کی تھیں خانقاہ میں آیا شیخ نے ایک ہی نگاہ میں پہچان لیا اور بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ استقبال کیا لیکن اپنے والد کا خرقۂ پیش کرنے میں کچھ تامل کررہے تھے حضرت شیخ احمد جام نے فرمایا حضرت امانت کی سپرداری میں دیر کرنا اچھی بات نہیں یہ بات سنتے ہی شیخ ابو طاہر وجد میں جھوم اٹھے خانقاہ سے خرقہ لائے اور حضرت شیخ احمد کی نہایت اعزاز کے ساتھ پہنچایا۔
کہتے ہیں یہ خرقہ بائیس (۲۲) اولیاء اللہ کی وساطت سے حضرت احمد جام تک پہنچا تھا۔ شیخ مودود چشتی بھی حضرت احمد جام سے نسبت روحانیت رکھتے تھے مناقب شیخ مودود میں اس کا تذکرہ موجود ہے آپ کی وفات ۵۳۶ھ میں ہوئی اس وقت آپ کی عمر شریف (۹۰) سال تھی آپ کا مزار پُرانوار بمقام جام موجود ہے۔
جناب شیخ احمد پیر بو نصر امیر المومنین محبوب گفتم ۵۳۶ھ
|
|
کہ بود او رونق دین زیب اسلام بسال رحلت آں شیخ خوش کام
|
|
عشق اللہ اور بونصر کامل احمد جام سے بھی تاریخ وصال نکلتی ہے۔
۵۳۶ھ اور ۵۳۶ھ
(خزینۃ الاصفیاء)