اسم گرامی احمد بن عیسیٰ لقب خراز اور طریقہ خرازیہ کے بانی تھے۔ آپ علماء شریعت اور مشائخ طریقت اور قطب الوقت زمانۂ خود تھے۔ علم تصوف میں چار سو سے زیادہ کتابیں لکھی تھیں ذوالنون مصری، سری سقطی اور بشر حافی سے صحبت رکھتے تھے۔ سب سے پہلے جس صوفی نے فنا و بقا کی اصطلاحات رائج کیں وہ حضرت ابوسعید ہی تھے۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ عنفوان جوانی میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ظاہری حسن و جمال سے نوازا تھا، ایک شخص میری اس شکل پر عاشق ہوگیا، میں اس سے کنارہ کشی کرتا۔ ایک دن میں ایک وادی میں آیا، تھوڑا سا فاصلہ چلا تو دیکھا کہ وہ شخص میرے پیچھے پیچھے آ راہ ہے، کہنے لگا اس وادی میں مجھ سے کہاں بچ کر جاؤ گے، میرے نزدیک ہی ایک کنواں تھا، میں نے کنویں میں چھلانگ لگادی، اللہ نے مجھے بچالیا، وہ شخص کنویں کے کنارے پر بیٹھ کر رونے لگا، میں نے اللہ سے پناہ مانگی اور کہا اے اللہ تو اس بات پر قادر ہے کہ مجھے کنویں سے زندہ رکھے اور اس شخص کے شر سے محفوظ رکھے، میں نے محسوس کیا کہ ایک زوردار ہوا نے مجھے کنویں سے باہر لا پھینکا ہے وہ شخص میرے پاس آیا میرے ہاتھ پاؤں چومے اور معذرت خواہی کی جب تک زندہ رہا، صدق و صفائی سے میری مصاحبت میں رہا۔
آپ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں وادی سے گزر رہا تھا میرے پاس زاوراہ نہیں تھی چند دن فاقہ میں گزرے ایک دن میری نظریں ایک آبادی پر پڑیں، میں بڑا خوش ہوا، دیکھا تو یہ آبادی نہ تھی کھجوروں کا ایک باغ تھا، وہاں پہنچا آرام کیا، سکوں حاصل ہوا، میرا خیال تھا کہ کچھ کھانے کو ملے گا، میرے نفس کی اس خواہش نے مجھے بے بس کردیا، میں نے قسم کھالی کہ اگر کچھ ملا بھی تو میں نفس کو کچھ نہ دوں گا، ریت میں قبر کھودی، اور اس میں گھس کر بیٹھ گیا، کچھ عرصہ بعد ایک قافلہ آیا، اس نے وہاں ڈیرہ جمالیا میرے پاس آئے نہایت ادب و احترام سے مجھے اپنے پاس لے گئے میں نے دریافت کیا، تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں اس قبر میں پڑا ہوا ہوں، انہوں نے بتایا قدرت کی طرف سے ایک آواز آئی کہ ہمارا ایک ولی اس ریگستان میں پڑا ہوا ہے، اسے تلاش کرو، تلاش کرتے کرتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔
حضرت کی وفات ۲۸۷ھ میں ہوئی تھی۔
زاہد ولی و عابد دین مقتدائے دیر سالِ وصال او تو باقوالِ اہل کتب
|
|
عالم سخی اہل کرم سعد بو سعید گو بو سعید اسعد ہم سعد بو سعید ۲۸۷ھ ۲۸۶ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)