آپ کا اسم گرامی ابراہیم تھا نیشاپور کے رہنے والے تھے، سید الطائفہ جنید اور ابوعثمان صیری اور حضرت ابو ابراہیم خواص کے ہم صحبت تھے، چالیس سال تک مکہ مکرمہ کی مجاور ی کی تھی ازرۂ ادب آپ نے حرم کی سر زمین میں پیشاب نہ کیا، کئی میل دور وادی میں نکل جاتے ساٹھ حج ادا کیے تھے فرمایا کرتے تھے تیس سال تک میں نے اپنے پیرو مرشد جناب جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا بول و بزار اٹھایا ہے اور اس خدمت کے لیے مجھے فخر و مسرت ہے۔
ایک بار حج کے موسم میں ایک عجمی شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور کہنے لگا میں نے حج ادا کرلیا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ دوزخ میں نہیں جاؤں گا، آپ بھی مجھے دوزخ سے نجات کی سند لکھ دیں، آپ کے دوستوں نے مجھے مشورہ دیا ہے کہ آپ سے سند فراغت عذاب دوزخ حاصل کروں حضرت شیخ نے اس کی سادگی دیکھی کہ آپ کے دوستوں نے آپ سے مذاق کیا ہے، آپ نے فرمایا کہ قبہ خلوت میں چلے جاؤ اور دعا کرو اور زور سے کہنا اے اللہ مجھے سند برات دوزخ عطا فرما، اس شخص نے ایسا ہی کیا، ایک کاغذ جس پر سبز روشنائی سے لکھا تھا تمہیں دوزخ کی آگ سے نجات دی جاتی ہے، ہاتھ پر آکر پڑا، وہ کاغذ اٹھاکر حضرت شیخ کی خدمت میں آیا، اور سر قدموں میں رکھ کر رونے لگا، اس کا یہ رونا خوشی کی انتہا تھی۔
آپ کی وفات ۳۴۸ھ کو ہوئی۔
ابو عمر و زجاجی شیخ والا بسالِ رحلت آں شاہِ عالم
|
|
کہ شیخ بود زاہد پیر و حاجی خرد گر دید بو عمروز حاجی
|
(خزینۃ الاصفیاء)