نیشا پور کے ایک جیرہ میں پیدا ہوئے اور اسی نام سے مشہور ہوئے، آپ حضرت شاہ شجاع کرمانی کے مرید ہوئے اور ابوحفص حداد یحییٰ بن مفاذ رازی کی مجالس میں بیٹھتے بڑے صاحب کشف و کرامات تھے آپ اپنے ہم عصر صوفیاء میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ چنانچہ شیخ الشیوخ حضرت مخدوم علی ہجویری لاہوری قدس سرہ اپنی کتاب کشف المحجوب فرماتے ہیں کہ حضرت ابوعثمان کو اللہ تعالیٰ نے تین بزرگانِ دین سے تین مقامات دیے تھے۔ حضرت یحییٰ بن معاذ سے مقام رجا عطا ہوا، حضرت شاہ شجاع کرمانی سے مقام عبرت حاصل کیا۔ اور حضرت ابوحفص حداد قدس سرہ سے مقام شفقت حاصل ہوا۔
سفینۃ الاولیاء کے مولف حضرت دار اشکوہ نے لکھا ہے کہ ابوعثمان جیری نے حضرت سید الطائفہ جنید بغدادی حضرت رویم، حضرت یوسف ابن حسین اور حضرت محمد فضیل بلخی رحمۃ اللہ علیہم کی مجالس سے استفادہ کرتے تھے۔ ریاضت میں یگانۂ روزگار تھے ابتدائی عمر کے بیس سال تک ریاضت اور مجاہدہ میں صرف کیے اور ان بیس سالوں میں آپ نے بنی آدم کی شکل نہیں دیکھی تھی اور بڑی مشقت سے عبادت کرتے رہے، آپ کی آنکھیں ایک باریک سا سوراخ رہ گئیں، انسانوں سے نہ صرف اجتناب کرتے بلکہ ڈرتے تاہم بیس سال کے بعد ایک وقت آیا کہ آپ کو حکم ہوا کہ لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کریں ۔ پہلے آپ نے ہمسایوں سے ملنا جلنا شروع کردیا، پھر حکم ہوا کہ مجاوران کعبۃ اللہ سے ملیں چنانچہ مکہ مکرمہ پہنچے، حرمین الشرفین کے مشائخ آپ کی آمد سے کشفی طور پر واقف تھے، آپ کا شاندار استقبال کیا گیا، اور جب آپ کو اس صورت و شکل میں دیکھا تو پوچھنے لگے، ابوعثمان بتاؤ تم نے اتنا عرصہ کیسے گزارا، یہاں سے کیوں گئے کیسے وقت گزرا، کیا کھویا، کیا پایا اور پھر واپس کیسے آگئے، آپ نے فرمایا: میں سکر کی حالت میں چلا گیا تھا، سُکر کے مصائب کو دیکھا مجھے بڑی مایوسی ہوئی، اب عاجز ہوکر اللہ کے گھر میں آگیا ہوں۔
شیخ ابوعثمان قدس سرہ ۲۹۸ھ میں فوت ہوئے، آپ کا مزار نیشاپور میں ہے۔
ابوعثمان جیری صاحب حق بتاریخ وصال اوز ہاتف
|
|
کہ بود اندر جہاں مطلوب و مرغوب ندا آمد کہ جیری بود محبوب ۲۹۸ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)