آپ بیت الجن میں قیام پذیر رہے بیت الجن دمشق کے نواح میں عقبہ کی چوٹی پر واقعہ ہے حضرت علی الہجویری داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ طریقت میں میری اقتداء آپ سے تھی وہ عالم تھے علوم حدیث۔ تفسیر روایت و کرامت میں یگانہ روزگار تھے ظاہری و باطنی مقامات سے آشنا تھے حضرت شیخ حصری کے مرید تھے ابوعمر قذوی ۔۔۔۔
آپ بیت الجن میں قیام پذیر رہے بیت الجن دمشق کے نواح میں عقبہ کی چوٹی پر واقعہ ہے حضرت علی الہجویری داتا گنج بخش فرماتے ہیں کہ طریقت میں میری اقتداء آپ سے تھی وہ عالم تھے علوم حدیث۔ تفسیر روایت و کرامت میں یگانہ روزگار تھے ظاہری و باطنی مقامات سے آشنا تھے حضرت شیخ حصری کے مرید تھے ابوعمر قذوینی اور ابوالحسن کے خاص احباب اور جلیس تھے ساٹھ سال تک بحکم خداوندی گوشہ نشین رہے عام لوگوں میں کبھی اپنے آپ کو نمایاں اور ممتاز نہیں ہونے دیا بڑی لمبی عمر پائی تھی خوارق و کرامت بے عدد و بے شمار ظاہر ہوئیں۔
آپ نے متصوفانہ لباس زیب تن کرنے سے گریز کیا عام لوگوں کے لباس میں رہتے مگر اتنی بارعب اور مہیب شخصیت تھی کہ ہر شخص بات کرتے وقت کانپ جاتا حضرت داتا گنج بخش ہجویری اپنی معروف کتاب کشف المحجوب میں لکھتے ہیں کہ ایک دن میں آپ کے ہاتھوں پر وضو کے لیے پانی انڈھیل رہا تھا میرے دل میں آیا کہ جب کاتب تقدیر نے ہر ایک بات تقدیر میں لکھ دی ہے تو لوگ اپنے پیروں کی خدمت اور دوسری ریاضتیں کیوں کرتے ہیں اور اِن خدمات کا بوجھ اٹھاتے ہیں شیخ نے وضو کے دوران ہی مجھے ایک نگاہ سے دیکھا اور فرمایا علی! تمہارے دل میں جو خیال آیا ہے میں اسے جانتا ہوں دراصل ہرکام کا ایک سبب ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی خاکی انسان کو تاج مملکت سے نوازتا ہے تو پہلے اسے گناہوں سے توبہ کی توفیق دیتا ہے اپنے بندوں کی خدمت میں مشغول کردیتا ہے وہ خدمتِ خلق میں مشغول ہوکر لوگوں کا خادم بن جاتا ہے اس خدمت کے صلہ میں اسے کرامت اور عزت حاصل ہوتی جاتی ہے۔
صاحبِ کشف المحجوب ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ایک بار حضرت شیخ نے بیت الجن سے دمشق کا قصہ فرمایا بارش ہورہی تھی ہم تمام خادم اور ہم سفر کیچڑ میں بڑی مشکل سے چل رہے تھے ہم منزلِ مقصود پر پہنچے دیکھا کہ شیخ کے جوتے خشک ہیں مجھے بڑی حیرانی ہوئی میں نے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے آپ نے فرمایا جب سے میں اپنا قدم اللہ کے راستہ میں رکھا ہے اللہ تعالیٰ نے میرے قدم کو کیچڑ سے محفوظ کردیا ہے۔
صاحب نفحات الانس اور کشف المحجوب نے آپ کا سنِ وصال بیان نہیں فرمایا لیکن نفحات الانس کے حاشیہ میں آپ کا سال وفات ۴۵۳ھ نظر سے گزرا ہے۔
پیر ابو الفضل بن حسن ختلی دے سرور دلی رہبر گفت ۴۵۳ھ
|
|
بود شیخ ہم صغار و کبار سالِ ترحیل آں شہِ ابرار
|
|
معدن الانوار(۴۵۳ھ) جنتی(۴۵۳ھ)
(خزینۃ الاصفیاء)