آپ برگزیدہ صوفیہ میں سے تھے صاحب مقامات عالیہ تھے کرامت و احوال و خوارق کا ظہور ہوتا تھا ابتدائی عمر میں راہزنوں کے ایک ٹولے کے ساتھی تھے اور ڈاکوؤں سے مل کر قافلے لوٹ لیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک قافلہ کو لوٹنے کے لیے تاک میں بیٹھے تھے تو غائب سے آواز آئی۔ یَا صَاحَبُ العَینُ عَلَیکَ عَیْنَ ط قافلے پر نگاہیں جمانے والے تم پر بھی کسی کی نگاہ ہے یہ بات سنتے ہی دل میں انقلاب آگیا اور کیفیت بدل گئی توبہ کرلی شیخ ابن الاملح یمنی سے بیعت کرلی شیخ کی توجہ سے ظلمتِ دل دور ہوگئی اور نور باطنی سے منور ہوگئے اور درجات ولائیت پر فائز ہوگئے۔
ایک دن ایندھن کی لکڑیاں اکٹھی کرنے کے لیے آپ صحرا و بیابان میں پہنچے آپ کے ساتھ ایک گدھا بھی تھا ایک شیر نے گدھے پر حملہ کرکے چیر پھاڑ دیا آپ لکڑیاں اکٹھی کرکے لائے تو گدھے کی ہڈیاں نظر آئیں اور دور ایک درخت کے سایہ کے نیچے شیر کو سویا پایا۔ آپ اس کے سرہانے جاپہنچے اور کہنے لگے تم نے میرا گدھا چیر پھاڑ دیا ہے اب میں تمہاری پشت پر لکڑیاں شہر تک لاد کر لے جاؤں گا شیر پر لکڑیاں رکھیں شہر تک لے گئے اور پھر اسے واپس بیابان میں آنے کی اجازت دی۔
ایک دن آپ کی بیوی نے آپ سے التماس کی کہ مجھے عطر لادیں شہر کے عطار کے پاس گئے اور عطر خریدنے کے لیے آگے بڑھے عطار نے سمجھا یہ درویش آدمی عطر کیا خریدے گا نفرت سے دوکان کے دروازے سے ہٹادیا۔ اور کہا میرے پاس عطر نہیں حضرت نے کہا دکان سے عطر ختم ہوگیا ہے آپ چلے گئے عطار نے اپنے برتن دیکھے تو واقعی عطر سوکھ چکا تھا عطار دوڑا دوڑا آپ کے مرشد ابوالاملح کے پاس گیا اور شکایت کی آپ نے حضرت ابوالغیث کو بلا بھیجا۔ اور کرامت دکھانے پر سرزنش کی اور چند دنوں کے لیے اپنی مجلس سے موقوف کردیا شیخ ابوالغیث نے معافی مانگی مگر شیخ نہ مانے آخر کار وہ شیخ کبیر علی ابدال کی خدمت میں گئے اور اپنی صحبت قبول کرنے کی التماس کی انہوں نے قبول کرلیا اور آپ کی نگاہ سے پہلے سے بلند مراتب مل گئے شیخ ابوالغیث کہا کرتے تھے میں قطرہ تھا شیخ کبیر علی ابدال نے مجھے سمندر بنادیا۔
آپ کے ایک خادم کو شاۂِ یمن نے ناحق قتل کرادیا۔ شیخ کو معلوم ہوا تو غضب ناک ہوئے آپ نے فرمایا ہم نے شاہ یمن قتل کردیا ہے اسی رات بادشاہ اپنے بستر میں مردہ پایا گیا۔ آپ ۶۵۱ھ کو فوت ہوئے۔
ابوالغیث پیر زمن شیخ دیں چو حسبتم ز دل سال ترحیل او
|
|
جمیل و شریف و نجیب و اصیل ندا شد بگو بود روش جمیل ۶۵۱ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)