آپ کا اسم گرامی علی بن احمد بن سہیل تھا، پوشنج کے رہنے والے تھے تذکرہ نگاروں نے آپ کے گاؤں کا نام پوشنگ بھی لکھا ہے، اور قوشنج بھی، یہ گاؤں ہرات کے نواح میں واقع تھا، آپ خراساں کے جواں مرد مشائخ میں سے تھے، حضرات ابوالعباس عطاء شیخ حریری طاہر مقدسی اور ابو عمرو دمشقی رحمۃ اللہ علیہم کے صحبت یافتہ تھے، آپ نے بہت سے سفر کیے، عراق میں عرصہ تک قیام فرما رہے، سفر عراق سے واپس آئے تو لوگوں نے آپ کو زندیق کہہ کر پکارنا شروع کردیا، وہاں سے آپ نیشا پور چلے گئے اور قیام پذیر ہوئے۔
ایک بار ایک دیہاتی کا گدھا گم ہوگیا، اس نے حضرت شیخ کو پکڑ لیا اور الزام لگایا کہ آپ نے گدھا چرالیا ہے، آپ نے اسے بتایا کہ تمہیں غلطی ہوئی ہے، مگر اس نے آپ کی بات نہ مانی، اور اصرار کیا کہ نہیں میرا گدھا تو آپ کے ہی پاس ہے جب تک برآمد نہیں ہوتا میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا آخر کار حضرت شیخ نے اپنا ہاتھ اٹھایاور کہا خداوندا! مجھے اس شخص سے نجات دلا، اور اس کا گدھا ظاہر فرما، اسی وقت گدھا نمودار ہوا، دیہاتی نے آپ سے نہ صرف عذر خواہی کی بلکہ شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا مجھے یقین تھا کہ میرا گدھا آپ نے نہیں چرایا مگر مجھے اتنا معلوم تھا کہ میں اللہ سے فریاد کروں بھی تو میری کون سنتا ہے میں نے آپ کو مجبور کیا تو آپ نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور یوں میرا کام ہوگیا۔
آپ کی وفات ۳۴۸ھ میں ہوئی تھی، آپ کی وفات کے بعد ایک شخص آپ کی قبر پر حاضر ہوا اس نے ایک دنیاوی حاجت طلب کی دوسرے دن حضرت شیخ نے اسے خواب میں آکر کہا ہم سے صرف دینی معاملات میں دستگیری حاصل کیا کرو، دنیا کے معاملات میرے سامنے نہ لایا کرو، ہمیں دنیا کے امور سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
بوالحسن چوں از جہاں رحلت نمود شد رقم محبوب دین حق حسن ۳۴۸ھ
|
|
سال وصلِ آں شہ والا مکان واصل دین بوالحسن ہم شد عیاں ۳۴۸ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)