آپ کا نام علی تھا، بغداد کے قدیم مشائخ میں سے تھے، سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی، حضرت سہیل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہما سے مجالس کرتے تھے، ایک عرصہ تک مکہ مکرمہ میں مجاور رہے یاور رہے، اولیاء کرام میں دو ایسے بزرگ ہوئے ہیں جن کا نام مزین تھا ایک مزین صغیر اور دوسرے مزین کبیر تھے دونوں بغداد سے تعلق رکھتے ہیں، مزین صغیر کا مزار مکہ مکرمہ میں ہے دونوں مزین خالہ زاد بھائی تھے۔
ایک دن حضرت شیخ مزین ایک وادی سے گزر رہے تھے ایک شیر کو دیکھا جو آپ کو غصے سے دیکھ رہا تھا آپ نے فرمایا: ثم اماتہ فاقبرہ،(پھر تمہیں مارے گا اور قبر میں ڈالے گا) اسی وقت شیر زمین پر بیٹھ گیا اور آپ نےدیکھا کہ وہ مرا پڑا تھا حضرت شیخ پہاڑی پر پہنچے تو آپ نے شیر کا حشر دیکھ کر فرمایا: ثم اذا شاء انشرہ (پھر جب چائے گا اسے اٹھائے گا ) شیر اسی وقت زندہ ہوگیا اور جنگل میں چلا گیا۔
آپ کی وفات ۳۲۸ھ میں ہوئی۔
بوالحسن آں مزین عالم رفت چون زین جہاں بجنت و خلد بوالحسن بندۂ علی فرما ۳۲۸ھ
|
|
پیشوائے جہاں بصدق و یقین سال تاریخ آن ولی امین ہم بخواں بوالحسن مزین دین ۳۲۸ھ
|
(خزینۃ الاصفیاء)