شیخ ابوالقاسم نصیرآبادی
شیخ ابوالقاسم نصیرآبادی (تذکرہ / سوانح)
آپ اعاظم و کبار مشائخ میں سے مانے جاتے تھے نام ابراہیم بن محمد بن حمویہ تھا اور جائے پیدائش نیشاپور تھی حضرت ابوبکر شبلی کے مرید تھے ظاہری اور باطنی علوم میں ماہر تھے فقہ، حدیث، تفسیر اور طریقت و حقیقت میں یگانۂ روزگار تھے ابو علی رودباری حضرت مرتعش اور ابوبکر طاہری رحمۃ اللہ علیہم کی مجالس میں فیض پایا، آخری عمر میں مکہ معظمہ میں مجاور بن گئے اور اسی منصب پر رحمت خداوندی حاصل کرکے وصال پایا۔
لوگوں نے آپ کو نیشاپور سے اس الزام میں باہر نکال دیا تھا کہ آپ محویت کے عالم میں زنار باندھے آتش پرستوں کے آتش کدہ کا طواف کرتے رہے لوگوں نے دریافت کی تو آپ نے فرمایا میں اپنے مقصد حاصل کرنے کے لیے دیوانہ وار مارا مارا پھر رہا ہوں میں نے کعبۃ اللہ میں مقصود حاصل کرنے کی کوشش کی، ناکام رہا اب آتش کدہ میں آیا ہوں شاید یہاں سے اس کی ذات کا مشاہدہ حاصل ہوجائے۔
شیخ ابوالقاسم رحمۃ اللہ علیہ نے ستر حج کیے ایک بار مکہ مکرمہ کے بازار میں سے گزر رہے تھے کہ ایک ناتواں کتے کو پیاسہ اور بھوکا دیکھا بڑا ترس آیا دل چاہا کہ اس کتے کو کچھ کھلائیں مگر پاس کچھ نہ تھا زور سے آواز لگائی ’’میں گندم کی روٹی کے بدلے چالیس حج کا ثواب بیچنے کو تیار ہوں ہے کوئی جو مجھے ایک روٹی دے‘‘۔ ایک شخص نے آگے بڑھ کر ایک روٹی دے دی اور چالیس حج خرید لیے اور ایک گواہ بھی مقرر کرلیا شیخ نے روٹی لی اور بھوکے کتے کو کھلادی اسی وقت ایک شخص نے اٹھ کر شیخ کے کندے پر زور سے تھپڑ مارا اور کہا ’’بیوقوف! تم نے ایک روٹی کے بدلے چالیس حج بیچ دیے ہیں تمہارے باپ آدم علیہ السلام نے تو ساری بہشت کو دو دانہ گندم پر فروخت کردیا تھا اس ایک روٹی میں ہزاروں دانے موجود ہوں گے‘‘ شیخ نے یہ بات سنی تو سخت نادم ہوئے اور سر جھکالیا۔
ایک بار حضرت شیخ ابوالقاسم رحمۃ اللہ علیہ مکہ مکرمہ میں جبل رحمت پر قیام فرما تھے، گرمی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ سخت گرم لو چل رہی تھی، آپ کو سخت بخار نے آلیا، آپ بخار کی شدت میں زمین پر لیٹے ہوئے تھے کہ ایک مرید آپ کے سرہانے آکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو حکم فرمائیں، آپ نے فرمایا مجھے پانی کا ایک ٹھنڈا پیالہ درکار ہے، اس شخص نے اِدھر اُدھر نظر ڈالی، ہاتھ پاؤں مارے مگر ٹھنڈا پانی کہیں سے نہ ملا بڑا مایوس ہوا دیکھتے دیکھتے بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا اور ژالہ باری شروع ہوگئی اس کے سامنے اولوں کا ڈھیر لگ گیا اس نے محسوس کیا کہ یہ حضرت شیخ کی کرامت ہے ا پنا برتن بھرا اور حضرت کے پاس لے آیا آپ نے پوچھا یہ اولے کہاں سے لے آئے ہو، اس نے سارا واقعہ سنایا اور اعتراف کیا کہ یہ آپ ہی کی کرامت ہے آپ نے فرمایا: میں یہ ٹھنڈا پانی نہیں پیوں گا اس کے پینے سے میرے نفس میں رعونت آجائے گی۔
ایک دن آپ مجلس میں بیٹھے گفتگو فرما رہے تھے کہ ایک دراز قد نوجواں اندر آیا، آپ کی باتیں سنیں اور بڑا متاثر ہوا چند لمحوں بعد باہر نکلا تو زور سے نعرہ مارا میرا کام پورا ہوگیا گھر گیا اپنی والدہ کو کہنے لگا میرے لیے کفن دفن کا انتظام کرو میں جا رہا ہوں یہ کہتے ہیں جان اللہ کے حوالے کردی۔
حضرت شیخ ابو عثمان مغربی نے مد ینہ منورہ میں جنت البقیع میں اپنی قبر خود ہی تیار کرلی تھی اس آرزو پر کہ مرنے کے بعد مجھے وہاں دفنا دیا جائے۔ شیخ ابوالقاسم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو کہا جس قبر کو آپ نے تیار کرایا ہے اس میں مجھے دفن کیا جائے گا مگر آپ کو نیشا پور میں دفنایا جائے گا یہ بات ابوعثمان کو ناگوار گزری کچھ دنوں بات شیخ ابوعثمان کو ایک ضروری کام کے لیے بغداد جانا پڑا بغداد سے ہوتے ہوئے ہرات گئے اور کچھ دنوں بعد نیشاپور میں چلے گئے اور وہاں ہی آپ کا انتقال ہوگیا اور نیشاپور میں دفن کردیے گئے، جو قبر جنت البقیع میں تیار کی گئی تھی اس میں حضرت ابوالقاسم کو دفنایا گیا۔
آپ کی وفات ۳۷۲ھ میں ہوئی تھی، ہمارے اس قول کی تائید صاحب نفحات الانس اور صاحب سکینۃ الاولیاء نے بھی کی ہے، مگر امام یافعی کے قول کے مطابق اور مجلس الاخبار میں امام قشیری کے حوالے سے آپ کا سن وفات ۳۶۷ھ لکھا ہے۔
شیخ ابوالقاسم کہ از انوار حق |
|
گشت روشن در جہاں مانند مہ |
قطب دوران(۳۷۲ھ)۔ وحید زمان ابوالقاسم(۳۶۷ھ)۔ قاسم ولی عالی جاہ(۳۶۷ھ)
(خزینۃ الاصفیاء)