شیخ احمد کتھو قدس سرہٗ
شیخ احمد کتھو قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
آپ بابا اسحاق مغربی کے خلیفہ نامدار تھے۔ گجرات کے مشہور مشائخ میں سے تھے۔ صاحب معارج الولایٔت فرماتے ہیں کہ شیخ احمد کتھو کے پیر و مرشد بابا اسحاق میرٹھ کی طرف آئے دریائے جون (جمنا) کے کنارے ایک قوت کے درخت کے نیچے چند روز یاد خدا وندی میں گزارے ایک دن میرٹھ کا ایک دولت مند ہندو مہش نامی جس نے زنّار پہنا ہوا تھا۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ چونکہ وہ بے اولاد تھا۔ اولاد کے لیے دعا کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا تمہیں یاحی یاقیوم کے نام کی برکات سے پانچ بیٹے نسیب ہوسکتے ہیں مگر تمہیں پہلا بیٹا مجھے دینا ہوگا۔ اسحاق قدس سرہٗ ہندوستان سے خراسان چلے گئے اور وہاں کئی سال رہے ایک عرصہ کے بعد دہلی واپس آئے اور آپ کی کرامت و ولایٔت نے بڑی شہرت حاصل کی کچھ دنوں بعد آپ میرٹھ گئے اور توت کے اسی درخت کے نیچے جو اب تک خشک ہوچکا تھا قیام فرما ہوئے درخت آن واحد میں سر سبز ہوگیا جس سے ہر دیکھنے والے متحیر ہوگیا۔ آپ کی اس کرامت کی شہرت نے سارے شہر کو لپیٹ لیا۔ مہش بھی حاضر خدمت ہوا۔ اور کہنے لگا۔ آپ کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ بیٹے دئیے ہیں حضرت شیخ نے فرمایا۔ اب بڑا لڑکا مجھے دے دو۔ مہش نے آپ کو اپنے گھر بلایا بڑی پرتکلف دعوت دی۔ مگر بڑے لڑکے کو چھپا دیا۔ اور اپنے چاروں بیٹے حاضر کیے آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا۔ مجھے تو بڑا بیٹا چائیے۔ مہش نے ایک بیٹے کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ حضور یہ بچہ حاضر ہے۔ آپ نے فرمایا۔ یہ بڑا بیٹا نہیں ہے مہش نے کہا۔ حضور میں آپ کو اپنے گھر لایا ہوں۔ آپ دیکھ لیں۔ آپ اٹھے اور بلند آواز سے فرمانے لگے۔ بیٹا قوام الدین کہاں چھپے ہوئے ہو۔ سامنے آؤ لڑکا اسی وقت حاضر ہوگیا اور سرقدموں میں رکھ دیا۔ حضرت شیخ نے اسے ساتھ لیا اور کتھوکے گاؤں کی طرف لے آئے اور پنا بیٹا بنالیا۔ قوام الدین کی عمر پچیس سال کے قریب ہوئی تو انتقال کر گیا۔ جس سے آپ کو بے پناہ صدمہ اور ملال ہوا۔ مگر ہاتف غیبی نے آواز دی کہ زیادہ ملال نہ کرو۔ ہم تمہیں اس بیٹے سے بہتر بیٹا عطا کریں گے جس سے تمہارا سلسلہ جاری اور ساری رہے گا۔ انہی دنوں دہلی میں زبردست طوفان آیا۔ تمام ماحول میں اندھیرا چھاگیا۔ دہلی کے شاہی خاندان کا ایک بچہ جسے اس کی دایہ گھر سے باہر لائی تھی۔ تاریکی میں گم ہوگیا۔ اور پھرتا پھرتا ایک ایسے مقام پر آپہنچا جہاں ایک قافلہ ٹھہرا ہوا تھا۔ صبح قافلے والوں نے ایک خوبصورت بچے کو دیکھا تو اسے اپنے ساتھ لے لیا اور دوآبہ (پنجاب) کی طرف روانے ہوگئے۔ یہ بچہ ایک شخص نجیب نسّاج کے ہاتھ آگیا۔ یہ شخص پنجاب کے ایک قصبہ دہندوانہ سے روئی کی تجارت کو دہلی گیا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ بچے کو اپنے گھر لے آیا۔ اتفاقاً اس گاؤں میں مولانا شہاب الدین ہمدانی کے پوتے مولانا صدرالدین اسی گاؤں میں گئے ہوئے تھے۔ وہ جناب ابواسحاق کو ملنے کے لیے کتھو گئے تو آپ نے انہیں فرمایا تھا۔ کہ اگر ایک بچہ اس شکل و صورت کا ملے تو میرے لیے لانا اس قصبہ میں آپ نے جب اس بچے کو غور سے دیکھا تو وہ واقعی اسی شکل و صورت کا تھا۔ جس کی خواہش حضرت شیخ اسحاق نے کی تھی۔ چنانچہ آپ نجیب نساّج سے وہ بچہ لیا اور حضرت کی خدمت میں لے آئے آپ نے اسے اپنی فرزندی میں رکھ کر پرورش کی اور اس کا نام شیخ احمد رکھا ۔
ان دنوں اس بچے کی عمر چار سال تھی۔ اور شیخ احمد کتھوکے نام پر مشہور ہوا۔ اور نشوونما پاتا رہا۔ شیخ احمد بارہ سال کی عمر کے ہوئے تھے کہ حضرت اسحاق نے انہیں دہلی میں بزرگان حیثیت کے مزارات کی زیارت کےلیے ساتھ لیا۔ شیخ احمد کے بھائی نے انہیں پہنچان لیا اور کہا کہ یہ تو میرا بھائی ملک نصیرالدین ہے۔ وہ سیاہ اندھیری میں گم ہوگیا تھا اس وقت آپ کے والدین ابھی تک زندہ تھے۔ انہوں نے اصرار کیا۔ مگر بچے نے شیخ اسحاق سے جدا ہونا قبول نہ کیا ان دنوں مخدوم جہانیاں جہاں گشت قدس سرہٗ اوچ شریف سے دہلی میں قیام پذیر تھے۔ سلطان فیروز شاہ اور دوسرے امرائے سلطنت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ شیخ اسحاق نے اپنے بیٹے شیخ احمد کو کہا۔ اگر تم چاہو تو تمہیں مخدوم جلال الدین جہانیاں سے بیعت کرالوں۔ انہوں نے کہا۔ کہ میں آپ کا مرید ہوں۔ آپ ہی میرے مخدوم ہیں مجھے نئی جگہ بیعت کی کیا ضرورت ہے۔ بچے کی یہ بات سنی تو شیخ اسحاق بہت خوش ہوئے اور فرمایا۔ ایک وقت آئے گا کہ ہندوستان کے شہنشاہ تمہارے دروازے پر حاضری دیا کریں گے۔
شیخ اسحاق کی محبت کا یہ عالم تھا کہ شیخ احمد کتھو کو ایک لمحہ کے لیے نہیں بھولتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے شیخ احمد کو بھی جس حسن و جمال سے نوازا تھا۔ کہ جو بھی آپ کو دیکھتا بے اختیار ہوجایا کرتا تھا۔ علم موسیقی میں بھی کمال تھا۔ اور آواز میں سخن دادوں تھا۔ شیخ احمد کی عمر بیس سال ہوئی تو شیخ اسحاق نے آپ کو لباس خلعت سے نوازا اور خرقہ خلافت کے ساتھ ساتھ اپنے پیراں کرام کے تبرکات اور روحانی امانتوں سے بھی نواز دیا اور خود فوت ہوگئے۔
شیخ احمد کتھو، شیخ اسحاق کی فاتحہ خوانی سے فارغ ہوئے تو بتاریخ ستمبر ماہ شعبان ۷۷۶ھ میں ایک چلہ میں بیٹھے۔ اکیس کھجوریں اور پانی کا ایک مشکیزہ اپنے ساتھ رکھا۔ اور حجرے کے دروازے کو بند کردیا۔ عید کے دن حجرے سے باہر آئے تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ نے چالیس دنوں میں صرف چار کھجوریں کھائی ہیں۔ وہاں سے سفر اختیار کرکے دہلی روانہ ہوگئے دہلی میں مسجد جہاں خان کے ایک گوشے میں اللہ اللہ کرنے لگے۔ ان دنوں مخدوم جہانیاں پھر دہلی میں تشریف لائے ہوئے تھے۔ اتفاقاً ایک دن آپ اس مسجد میں تشریف لے گئے۔ ابھی پالکی سے نیچے نہ اترے تھے کہ شیخ احمد کتھو اپنے حجرے سے نکل رہے تھے۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت مخدوم جلال الدین آپ سے بغل گیر ہوئے اور آپ کے کان میں فرمایا۔ اے دوست! تمہارے وجود سے دولت کی خوشبو آرہی ہے چونکہ وہاں بہت ہجوم تھا۔ شیخ احمد خاموش رہے۔ اور وہان سے نکل کر تجدید کی زندگی اختیار کرلی پورے بارہ سال اسی حالت میں یاد الٰہی میں رہے اسی دوران سفر کرکے زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے۔ پھر دہلی آکر سکونت اختیار کرلی۔
۸۰۱ھ میں امیر تیمور گور گانی نے دہلی پر حملہ کیا۔ فیروز شاہ کاپوتا۔ سلطان محمود ان دنوں دہلی کا فرمانروا تھا۔ تیمور سے جنگ کرتا رہا مگر شکست کھا کر دہلی کو تیمور کے رحم و کرم پر چھوڑ کر گجرات چلا گیا۔ امیر تیمور نے دہلی میں قتل عام کے بعد حکم دیا۔ کہ اب دہلی اور اس کے نواح کے بقیۃالسیف لوگوں کو قید کرلیا جائے شیخ احمد کتھو بھی ان قیدیوں میں لائے گئے۔ ان دنوں دہلی قحط سالی کا شکار تھا جنگ کی وجہ سے کھانے کی چیزوں کو سخت قلت ہوگئی تھی۔ لوگ بھوکے مرنے لگے تھے حضرت شیخ احمد جس چار دیواری میں محبوس تھے آپ کے ساتھ اور بھی چالیس آدمی قید تھے۔ شیخ احمد ہرروز ایک ایک تازہ روٹی غائب سے اٹھاتے اور اپنے ساتھیوں کو کھلاتے۔ آپ کی یہ کرامت رفتہ رفتہ امیر تیمور کے کانوں تک جاپہنچی امیر تیمور نے آپ کو اور آپ کے چالیس ساتھیوں کو اپنے دربار میں طلب کیا۔ معذرت کی اور سب کو آزاد کردیا۔ پھر یہ بھی اعلان کردیا۔ کہ شہر کے تمام قیدیوں میں سے حضرت جس قیدی کو چاہیں آزادی دے دی جائے گی۔ آپ نے ہزاروں لوگوں کو آزاد کردیا۔ امیر تیمور کو آپ سے بے پناہ عقیدت ہوگئی۔
سات ماہ کے قیام کے بعد امیر تیمور دہلی کو چھوڑ کر اپنے وطن واپس ہوا۔ تو شیخ احمد بھی ازرۂ مرّوت اس لشکر کے ساتھ سمر قند پہنچے۔ وہاں سے خراسان گئے اور پھر گجرات چلے آئے۔ گجرات میں ان دنوں ظفر خان حکمران تھا۔ یہ شخص فیروز شاہ کے مقرر کردہ حاکموں میں سے تھا۔ اسے بھی حضرت شیخ احمد کے ساتھ عقیدت تھی۔ اس نے آپ کی بڑی عزت و توقیر کی اور حضرت شیخ احمد کی آمد کو غنیمت جانا اور التجا کی کہ آپ اب یہاں ہی رہیں حضرت شیخ احمد نے اس کی اس خواہش پر گجرات میں ہی سکونت اختیار کرلی۔
سلطان مظفر خان کی وفات کے بعد اس کا پوتا سلطان احمد تخت نشین ہوا۔ وہ بھی شیخ احمد کا مُرید ہوگیا تھا۔ ایک دن سلطان احمد نے التماس کی حضور مجھے حضرت خضر علیہ السلام سے ملائیے۔ آپ نے فرمایا میں حضرت خضر سے پوچھتا ہوں۔ اگر وہ مان گئے تو بہتر انہوں نے پوچھا تو حضرت خضر نے کہا انہیں چالیس دن تک عبادت خداوندی میں رہنا چاہیے۔ چنانچہ سلطان ایک ماہ تک چلہ میں رہے۔ پھر حکم ہوا۔ کہ دو (۲) چلّے مزید کاٹیں تین چلّے مکمل کرلیے گئے تو سلطان احمد حضرت شیخ احمد کے حجرے میں بیٹھے تھے۔ کہ نماز صبح کے بعد حضرت خضر علیہ السلام تشریف لائے دورانِ گفتگو سلطان احمد نے درخواست کی۔ حضور مجھے عجائبات دنیا سے کوئی حیران کن چیز دکھائیں آپ نے فرمایا۔ دریائے صابرمتی کے کنارے پر جہاں آج کل صحرا ہے۔ ایک شہر آباد تھا۔ اس شہر کا نام تھا باداں باد وہاں کے لوگ بڑے خوشحال اور امیر تھے۔ ایک دن مجھے بھوک لگی۔ میں اس شہر میں گیا ایک حلوہ فروش کی دوکان پر پہنچا اور تیس تنکہ دے کر حلوہ خریدنا چاہا۔ دکاندار نے مجھے دیکھتے ہوا کہا۔ تم مجھے درویش دکھائی دیتے ہو۔ میں تم سے پیسے نہیں لوں گا۔ ہاں حلوہ جس قدر چاہو کھالو کچھ عرصہ بعد میں پھر وہاں سے گزرا۔ تو وہاں شہر۔ شہر والوں بازاروں اور محلّات کا نام و نشان نہیں تھا۔ ان کھنڈرات پر ایک ڈیڑھ سو سالہ بوڑھا بیٹھا نظر آیا میں نے اس سے شہر کے حالات دریافت کیے۔ تو کہنے لگا۔ شہر کا حال تو مجھے بھی معلوم نہیں ہے۔ ہاں میں نے اپنے بوڑھوں سے سنا ہے۔ کہ یہاں ایک شہر تھا۔ جس کا نام باداں دبا تھا۔ سلطان نے حضرت خضر سے اجازت لی کہ اگر آپ چاہیں تو میں اسی مقام پر ایک شہر آباد کرنے کا حکم دوں حضرت خضر نے کہا۔ ہاں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن ایک شرط یہ ہے کہ سارے ملک سے ایسے چار اشخاص لائے جائیں جن کا نام احمد ہو۔ اور انہوں نے اپنی شعوری عمر میں نماز عصر کی سنتیں بھی قضا نہ کی ہوں اور وہ اس شہر کا سنگ بنیاد رکھیں اور اس کا نام احمد آباد رکھا جائے چنانچہ چار ایسے آدمی تلاش کرنے کا حکم دیا گیا۔ سارے ملک گجرات میں صرف دواشخاص احمد ناحی ملے۔ ایک قاضی احمد اور دوسرے ملک احمد تھے۔ لیکن ان دونوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ملتا۔ حضرت شیخ احمد نے فرمایا۔ تیسرا شخص احمد میں ہوں۔ سلطان احمدیہ سن کر کہنےلگا۔ چوتھا احمد میں ہوں مجھ سے آج تک عصر کی سنتیں قضا نہیں ہوئیں چنانچہ چاروں مل کر دریائے صابر متی کے کنارے پہنچے۔ خضر علیہ السلام نے جس جگہ کی نشاندہی کی تھی۔ وہاں بتاریخ ہفتم ذیقعدہ ۸۱۳ھ احمد آباد کی بنیاد رکھی تین سو ساٹھ محلے بنائے گئے۔ ہر ایک محلہ ایک پورا قصبہ تھا (موجودہ دور میں کالونی کی تعمیر اسی طرز پر ہو رہی ہے) شہر کے دفاع کے لیے ایک مضبوط قلعہ بنانا شروع کیا گیا۔ ایک مضبوط سی فصیل تیار کی گئی۔ مگر قلعہ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس کی دیواریں بہہ گئیں۔ سلطان اس حادثہ سے بڑا برہم ہوا۔ اور مایوس بھی حضرت شیخ احمد کی خدمت میں پہنچ کر اظہار تاسّف کیا۔ آپ ازرہ کرم نوازی موقعہ پر خود گئے توجہ دی۔ توجہ کے دوران آپ کے سامنے ایک جوگی کی صورت سامنے آئی وہ کہنے لگا۔ میرا نام مانک جوگی ہے یہ شہر تو میرا مستقل مقام ہے۔ اب آپ چار حضرات نے اسے اپنا شہر بنا کر اس کا نام احمد آباد رکھ لیا ہے یاد رکھیں جب تک اس شہر میں میرا نام شامل نہیں کیا جائیگا میں قلعہ کی بنیادوں کو ہلاتا رہا کروں گا۔ حضرت شیخ نے ایک محلے کا نام مانک پور رکھ دیا۔ پھر قلعہ تیار کرایا گیا۔
حضرت شیخ احمد کی عمر شریف ایک سو سال سے تجاوز کر گئی آپ نے شیخ صلاح الدین جو راجپوتوں کا ایک لڑکا تھا۔ جو بچپن سے آپ کی زیر تربیت رہا تھا۔ اپنا جانشین بنایا۔ خرقہ خلافت عطا فرمایا آپ ایک سوگیارہ سال کی عمر میں وصل بحق ہوئے۔
شرح جلال اور معارج الولایت میں لکھا ہے کہ آپ کی ولادت ۷۳۸ھ میں ہوئی تھی اور ایک سو گیارہ سال کی عمر میں بروز جمعرات دس ماہ شوال ۸۴۹ھ میں فوت ہوئے۔ یہ زمانہ سلطان محمد بن سلطان احمد بادشاہ گجرات کا تھا صاحب معارج الولایت نے آپ کا سن ولادت مخدوم اولیاء (۷۳۸ھ) اور سن وصال قطب (۸۴۹ھ) الاولیاء اور سن عمر قطب (۱۱۱) سے نکالا ہے۔ احمد آباد سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر آپ کا مزار پُر انوار واقعہ ہے۔ اور موضع سیر کینچ میں آسودۂ خاک ہیں۔
شیخ احمد بود مرغوب خُدا سال وصلش سالک و عالی نجواں |
|
رہنمائے حق فقیر بے نظیر شد وصالش مقتداء احمد امیر |
|
||
|
شیخ احمد فرماتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ میں زیارتِ روضہ منورہ کو گیا تھا۔ تومیرے ساتھ امام خاں جہاں شیخ تاج الدین سرکیچی اور ایک اور دوست موجود تھے۔ ہم مسجد نبوی میں بیٹھے تھے شام ہوئی۔ تو دوستوں کو کھانے کی فکر ہوئی۔ ہم نے گذارش کی۔ آج ہم رسول اللہﷺ کے مہمان ہیں۔ ہمیں کھانے کی کیا فکر ہے۔ دوسرے دوست تو اَدھر اُدھر چلے گئے مگر میں اکیلا مسجد نبوی میں بیٹھا رہا۔ نماز عشا کے بعد میرے ساتھ سونے کے لیے چلے گئے مگر میں تنہا مسجد نبوی میں بیٹھا رہا۔ ایک شخص مسجد کے دروازے سے اندر آکر بلند آواز سے کہنے لگا۔ نبی کریمﷺ کے مہمان کون صاحب ہیں۔ میں اٹھا جھولی پھیلائی تو اس شخص نے کھجوریں انڈیل دیں۔ میں نے کھائیں ان کی شرینی اور لذّت آج تک محسوس کرتا ہوں۔
شیخ احمد کتھوکی خانقاہ میں اتنا کھانا پکایا جاتا تھا کہ ہزاروں لوگ مسافر اور فقرا، درویش و مساکین جمع ہوتے اور پیٹ بھر کر کھاتے آپ کے وصال کے بعد بھی یہ لنگر جاری رہا۔ حتٰی کہ بعض اوقات بادشاہ اپنے لاؤ لشکر سمیت زیارت مزار کے لیے آتے سب کو کھانا کھلایا جاتا تھا کبھی طعام اور کھانے کی کمی نہیں ہوئی۔
(خزینۃ الاصفیاء)