شیخ احمد بیگ قادری نوشاہی
شیخ احمد بیگ قادری نوشاہی (تذکرہ / سوانح)
حضرت حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کے اکابر خلفأ سے تھے۔ بارگاہِ مرشد سے نور محمّد نوری کے خطاب[1] سے ممتاز تھے۔ پہلے علم ظاہری میں حضرت نوشاہ عالی جاہ کے شاگرد تھے بعد ازاں مرید ہوکر کمال کو پہنچے۔ بڑے بذرگ، صاحبِ علم و عمل اور زاہد و عابد تھے۔ نقل ہے ایک روز موضع نوشہرہ کا یک معلّم بلاول نام حضرت نوشہ گنج بخش کی خدمت میں حاضر ہوا اور نذرانہ دیا اور عرض کیا کہ حضرت توجہ فرمایئے اور دُعا کیجئے کہ میری حالت شیخ احمد بیگ کی سی ہوجائے۔ آپ نے متبسّم ہو کر فرمایا: ہر ایک کو مرتبہ اس کے حوصلے اور ظرف کے مطابق دیا جاتا ہے، تو اچھا اگر تیری یہی مرضی ہے تو ایسا ہی ہوجائے گا۔ معلّم اسی وقت بے ہوش ہوکر گِر پڑا اور تڑپنے لگا۔ حتیٰ کہ تڑپتے تڑپتے مکان کی ایک منزل سے نیچے صحن میں آگِرا اور کئی روز کے بعد ہوش میں آیا۔ اس پر ایسی حالت وارد ہوئی کہ اپنے گھر میں بیٹھا ہوتا یک لخت انتہائے اضطراب و بے چینی میں اُٹھ کھڑا ہوتا۔ اہل خانہ اس بے قراری کا سبب پُوچھتے تو کہتا کہ حضرت نوشاہ اپنے گھر میں اپنی جگہ سے اُٹھے ہیں اور میں اُن کی تعظیم کے لیے اُٹھا ہُوں۔ غرض وُہ اپنی اس حالت میں بڑا بے قرار و بے چین رہنے لگا۔ کسی وقت بھی اسے سکون حاصل نہیں ہوتا تھا۔ آخر عاجز و درماندہ ہوکر حضرت نوشہ کی خدمت میں حاضر ہُوا۔ عرض کیا: حضور دُعا فرمایئے کہ مجھے اپنی اصلی حالت نصیب ہوجائے۔ آپ نے پانی منگوایا۔ کُچھ اُس میں سے آپ پیا، کُچھ اُسے پلایا۔ وہ پانی پیتے ہی اپنی اصلی حالت پر آگیا[2]۔
حضرت شیخ احمد بیگ کے بڑے بڑے کامل و اکمل مرید خلیفہ ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض تو اپنے فضل و کمال کے باعث بڑے شہرۂ آفاق ہوئے ہیں۔ مثلاً سیّد انور رہتاسی، بولا درزی رہتاسی، محمد صدیق رہتا سی بڑے عابد و زاہد، صائم الدہر اور قائم اللیل ہوئے ہیں۔ آٹھویں روز افطار کرتے تھے۔ بدھو درزی کو فرمایا تھا کہ تمہارے سماع کے وقت ہوائی جانور بھی ،مست ہوجایا کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا رہا۔ اسی طرح حافظ محمد مخدوم رہتاسی ساکن چک حافظاں بڑے صاحبِ ذوق و شوق و وجد و سماع بزرگ تھے اور اکثر و بیشتر حالتِ جذب و استغراق میں رہا کرتے تھے۔ بوقت سماع ایسے بیخود و مدہوش ہوجاتے تھے کہ ایک ایک ہفتہ ہوش میں نہ آتے تھے۔ میاں حاجی خلیفہ بھی ان کے ایک نامور سیف اللسان مستجاب الدعوات مرید ہُوئے ہیں۔ جو کہتے تھے ویسا ہی ظہور میں آتا تھا۔ مولانا محمد حیات صاحبِ تذکرہ نوشاہی آپ ہی کے حلقۂ ارادت میں داخل تھے اور خرقۂ خلافت پایا تھا۔ ۱۱۴۰ھ میں بعہدِ محمد شاہ وفات پائی۔ مزار سیالکوٹ میں ہے[3]۔
چو نور محمّد ولی خدا |
|
ز دنیائے دوں شد بخلدِ بریں |
[1]۔ مفتی غلام سرور صاحب کو یہاں غلطی لگ گئی ہے۔ انہوں نے احمد بیگ کو نور محمد نوری لکھ دیا ہے، حالانکہ احمد بیگ لاہوری، شیخ نور محمد کا مرید تھا۔
[2]۔ یہ واقعہ مفتی غلام سرور صاحب نے حضرت نوشہ صاحب کی طرف منسوب کردیا ہے حالانکہ تذکرہ نوشاہی میں یہ واقعہ اس طرح ہے کہ بلاول سیالکوٹ کا معلم تھا اور شیخ نور محمد سیالکوٹی کامرید تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ اُس کے پیر بھائی احمد بیگ کی حالت بہت بہتر ہے تو اپنے مرشد شیخ نور محمد سے عرض کیا مجھ پر بھی ایسی توجہ کریں کہ احمد بیگ جیسا میرا حال ہوجائے۔ الخ مفتی صاحب کو مضمون سمجھنے میں غلطی لگ گئی ہے۔ احمد بیگ اور نور محمد کو ایک شخصیت قرار دے دیا۔
[3]۔ یہ سب خلفاء جو شیخ احمد بیگ کے لکھے ہیں، یہ حضرت سید شاہ عصمت اللہ کے ہیں۔ سیّد حافظ محمد حیات نوشاہی نے تذکرہ نوشاہی میں ایک پُوری فصل خلفائے شاہ عصمت اللہ کے متعلق لکھی ہے۔ مفتی صاحب کو یہ فاش غلطی لگ گئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مفتی صاحب تذکرہ نوشاہی کا کوئی پراگندہ اور اق مخطوطہ ملا ہوگا خلفائے شاہ عصمت اللہ والا کوئی درق شیخ نور محمد صاحب کے ذکر میں پڑا ہوگا، جس سے وُہ حالات کا صحیح اندازہ نہیں کرسکے۔ مفتی صاحب نے تین افراد کو ایک بنادیا ہے۔ شیخ نور محمد متوفیٰ ۱۱۰۱ھ، مرزا احمد بیگ متوفیٰ ۱۱۰۸ھ، شاہ عصمت اللہ متوفیٰ ۱۱۳۷ھ۔ یعنی ان کے حالات کو مخلوط کردیا ہے۔
[4]۔ شیخ نور محمد کا صحیح سالِ وفات ۱۱۰۱ھ ہے۔ (شریف التواریخ جلد سوم، حصّہ اول موسوم، بہ تحائف الاطہار قلمی ص ۵۳۲ از سیّد شرافت نوشاہی)۔