آپ شیخ صدرالدین حکیم کے مخلص دوستوں اور مشہور خلفاء میں سے تھے۔ ابتدائی زندگی میں دہلی کے مشہور علماء میں شمار ہوتے تھے اور دہلی کی جامع مسجد میں درس قرآن دیا کرتے تھے۔ مگر جب جذب حقیقی نے اثر کیا تو شیخ صدرالدین حکیم قدس سرہ الحکیم کے مرید ہوگئے ریاضت اور مجاہدہ اختیار کرلیا فقر و فاقہ اور محنت کے باوجود کام نہ بنا تو اپنے مرشد مکرم کے سامنے شکایت کی آپ نے فرمایا تم کتابیں پڑھنا پڑھانا چھوڑ دو جو کتابیں تمہاری ملکیت میں ہیں انہیں لے آؤ آپ نے ایسا ہی کیا۔ مگر چند نادر اور لطیف کتابیں اپنے گھر میں رکھ لیں۔ اس کے باوجود بھی آپ کے دل پر عرفان خداوندی کے دروازے نہ کھل سکے۔ آخر کار شام کی تمام کتابیں جمع کر کے دریا کے کنارے بیٹھ گئے اور کتابوں کو دریا برد کرنے لگے۔ ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے آنسوں کے دریا بہہ رہے تھے۔ اس حالت میں آپ کے دل کی تختی ما سوای اللہ کے نقش سے پاک ہوگئی۔ اور صفحہ باطن پر رب المعبود کا نقش مرتسم ہوگیا۔ اور تھوڑے ہی عرصہ میں کاملین وقت میں ہوگئےہزاروں طالباں حق آپ کی خانقاہ میں جمع ہونے لگے۔ چنانچہ قاسم دہلوی جیسے آپ کے خلیفہ بنے شیخ محمد عیسیٰ تاج جونپوری رحمۃ اللہ علیہ آپ کے مرید بن گئے۔ شاہ عاشقان جناب موسیٰ آپ کی خلافت سے مشرف ہوئے۔ شیخ حاجی چراغ ہند قدس سرہ ظفر آبادی جیسے مشاہیر سلسلہ طریقت میں آئے۔ شیخ جمال گوجر۔ شیخ مظفر بلخی کے خلیفہ تھے حضرت شیخ فتح اللہ کے معاصر تھے۔ آپ کے مرید باصفا بنے۔
آپ کی وفات ۸۲۱ھ میں ہوئی۔
جناب شیخ فتح اللہ مقبول
چو حق بکشود بردے جتنی باب
بگو وصلش امام اولیا خاص
۸۲۱ھ
بفر مانور دین فتاح البواب
۸۲۱ھ