شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین کے حالات
شیخ الاسلام خواجہ قطب الدین کے حالات (تذکرہ / سوانح)
شیخ علی الاطلاق قطب باتفاق، اسرر کے سر چشمہ، انوار کے مطلع، دنیا جہان کی شمع، بنی آدم کے بادشاہ نامدار شیخ الاسلام قطب الحق والدین بختیار اوشی قدس اللہ سرہ العزیز ہیں۔ آپ جناب شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری کے مشہور اور نامور خلیفہ اور اکابر اولیاء کے سرتاج۔ اجلہ اصفیا کے مقتدا ہیں تمام اولیاء وقت اور اصفیاء عصر آپ کے معتقد و فرما نبردار تھے اور نہایت وقعت و قبول کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ’’ولِی معَ اللہ‘‘ کے شغل کے ساتھ موصوف اور ترک و تجرید کے ساتھ مخصوص تھے۔ آپ رجب المرجب کے مہینے ۵۲۲ ہجری میں شہر بغداد امام ابو اللیث سمر قندی رحمۃ اللہ علیہ کے مسجد میں شیخ شہاب الدین سہروردی اور شیخ اوحد کرمانی اور شیخ برہان الدین چشتی اور شیخ محمد صفاہانی کے سامنے شیخ الاسلام شیخ معین الدین سنجری کی بیعت کے شرف سے ممتاز ہوئے اور آپ کے اعتقاد و ارادت کا حلقہ اطاعت کے کان میں ڈالا۔
شیخ الاسلام قطب الدین قدس سرہ العزیز کے مجاہدہ کا بیان
حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین فرماتے تھے کہ ایک دفعہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز سے ایک یار نے پوچھا کہ شیخ الاسلام قطب الدین کانسہ اور کندوری رکھتے تھے فرمایا نہیں ابتدا میں ان کی زندگی نہایت عسرت اور تلخی سے بسر ہوتی تھی اول اول خواجہ ایک مسلمان بقال آپ کو قرض دے دیا کرتا اور جب کہیں سے کوئی تحفہ آپ کے پاس پہنچتا تو بقال کا قرض ادا کر دیا جاتا لیکن چند روز کے بعد خواجہ نے اس پر عزم بالجزم کر لیا کہ اب میں کسی سے کچھ قرض نہ لوں گا۔ ازاں بعد خدا کے فضل و کرم سے روز مرہ ایک بڑا کاک آپ کے مصلے کے نیچے سے پیدا ہوتا تھا جو سارے گھر کو کافی ہوجاتا تھا۔ بقال کو خیال ہوا کہ شاید شیخ مجھ سے نا راض ہیں جو اب قرض نہیں لیتے یہ سوچ کر اس نے اپنی بی بی کو شیخ کے حرم محترم کے پاس بھیجا کہ وہ اس بات کو دریافت کرے۔ دریافت کرنے کے بعد شیخ کے حرم محترم نے جواب دیا کہ اب شیخ کو قرض لینے کی حاجت نہیں ہے کیونکہ ہر روز ایک کاک آپ کے مصلے کے نیچے سے پیدا ہوجاتا ہے جو تمام اہلِ خانہ کو بس کرتا ہے بقال کی عورت یہ سن کر چلی گئی اور اب کاک کا ظاہر ہونا موقوف ہوگیا۔ شیخ نے اپنے حرم محترم سے دریافت کیا کہ کیا تم نے کاک کے ظاہر ہونے کے حکایت کسی کے کے آگے بیان کی ہے جو اب دیا کہ ہاں بقال کی عورت سے اس کاک کا اظہار کیا گیا تھا۔ حضرت سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ معین الدین حسن سنجری نے شیخ قطب الدین کو پانچ سو درہم تک فرض کرنے کی اجازت دی تھی لیکن جب آپ کا کمال انتہائی درجہ کو پہنچ گیا تو پھر آپ نے اس سے کنارہ کشی کی۔
شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کا کی قدس اللہ سرہ العزیز
کی مشغولی کا بیان
حضرت سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ نے انتہا درجہ کی مشغولی کی وجہ سے سونا بالکل ترک کر دیا تھا یہاں تک کہ بستر راحت پر کبھی کسی نے آپ کو آرام کرتے نہ دیکھا البتہ اول زمانہ میں نیند کے غلبہ کے بعد تھوڑی دیر سو رہتے تھے لیکن آخر عمر میں وہ بھی بیداری سے بدل گیا تھا اور اکثر زبان مبارک پر جاری ہوتا تھا کہ اگر کبھی میں سو جاتا ہوں تو سخت زحمت و تکلیف اٹھاتا ہوں۔ آپ کے شغل حق کی یہاں تک نوبت پہنچ گئی تھی کہ جب کوئی آپ کی زیارت کے لیے آتا تو تھوڑی دیر ٹھہر کر ہوش میں آتے اور پھر مشغول بحق ہوجاتے کبھی اپنے یا آئندہ کے حال میں کچھ فرما دیتے پھر زائرین سے فرماتے مجھے معاف کرو کہ میں ملاقات کی فرصت نہیں رکھتا۔ یہ کہہ کر پھر مشغول ہوجاتے۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام قطب الدین کا چھوٹا صاحبزادہ انتقال کر گیا جب شیخ اسے دفن کر کے واپس آئے تو لڑکے کی ماں کی رونے کی آواز آپ کے کان مبارک میں پہنچی شیخ نے بہت افسوس کیا شیخ بدر الدین غزنوی نے جو اس وقت آپ کی مجلس میں حاضر تھے پوچھا کہ حضرت یہ افسوس کیسا ہے فرمایا مجھے اس وقت یاد آیا کہ میں نے پیشتر فرزند کے بقا کی خدا سے کیوں درخواست نہ کی۔ اگر میں اس وقت اس کی بابت خدا سے درخواست کرتا تو ضرور پاتا یہاں تک پہنچ کر سلطان المشائخ نے فرمایا دیکھو شیخ کا استغراق دوست کی یاد میں اس درجہ پہنچ گیا تھا کہ فرزند کی زندگی و موت کی خبر تک نہ تھی۔
شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کا کی قدس اللہ سرہ العزیز
کی عظمت و کرامات کا بیان
حضرت سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رئیس نامی نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک عظیم الشان قبہ موجود ہے جس کے ارد گر مخلوق کا ایک جمگھٹا لگا ہوا ہے اور ایک ٹھگنا آدمی بار بار قبہ میں آمد و رفت کر رہا ہے اور خلق جو اپنے پیغام دیتی ہے ان کا جواب سناتا ہے رئیس نے کسی سے دریافت کیا کے کہ اس قبہ میں کون ہے اور یہ ٹھگنا آدمی جو بار بار اندر جاتا اور باہر آتا ہے کون ہے۔ جواب دیا کہ اس عالیشان قبہ میں جناب نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے ہیں اور وہ شخص عبد اللہ بن مسعود ہیں۔ رئیس کا بیان ہے کہ میں حضرت عبد اللہ کے پاس گیا اور عرض کیا کہ آپ جناب نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیجیے کہ میں حضور کے دیدار سے مشرف ہونا چاہتا ہوں حضرت عبد اللہ قبہ کے اندر تشریف لے گئے اور باہر آکر فرمایا جناب رسولِ خدا ارشاد فرماتے ہیں کہ ابھی تک تجھ میں میرے دیکھنے کی قابلیت پیدا نہیں ہوئی ہے، لیکن تو بختیار کاکی کے پاس جا کر میرا سلام پہنچا اور کہہ کہ ہر شب کو تیرا بھیجا ہوا تحفہ میرے پاس پہنچتا تھا مگر اب تین روز ہوئے جو تیرا تحفہ میرے پاس نہیں پہنچا اس کی وجہ بجز خیریت کے اور کچھ نہ ہو۔ رئیس کہتا ہے میں بیدار ہوا اور شیخ قطب الدین بختیار کا کی خدمت میں آکر کہا کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو سلام پہنچاتے ہیں شیخ یہ سنتے ہی فوراً کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے۔ میں نے عرض کیا آپ فرماتے ہیں کہ جو تحفہ تم ہر شب بھیجا کرتے تھے مجھے برابر پہنچتا تھا لیکن تین راتوں سے نہیں پہنچتا۔ شیخ قطب الدین نے اس وقت اس عورت کو طلب فرمایا جس سے اسی زمانہ میں نکاح کیا تھا اس کا مقررہ مہر حوالہ کیا اور طلاق دے کر رخصت کردیا۔ بعد ازاں فرمایا بے شک تین راتوں سے میں تزویج میں تھا اور جناب رسول خدا کی خدمت میں تحفہ پیش کرنے سے یہ ہی تزویج کا شغل مانع تھا۔ سلطان المشائخ اس واقعہ کی نقل کر کے فرماتے ہیں کہ وہ تحفہ یہ تھا کہ شیخ تین ہزار دفعہ درود پڑھ کر سویا کرتے تھے۔ سلطان المشائخ بھی یہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ شیخ قطب الدین بختیار اور شیخ بہاؤ الدین زکریا اور شیخ جلال الدین تبریزی قدس اللہ سرہم العزیز ملتان میں تشریف رکھتے تھے اسی زمانہ میں کفار کا بڑا برار و خوانخوار لشکر قلعہ ملتان کی دیوار کے نیچے آپڑا اور ملتان کی تسخیر کا ارادہ کیا۔ ملتان کا حاکم جو قبائچہ کے نام سے شہرت رکھتا تھا لشکر کفار کے دفاع کے لیے ان بزرگانِ دین کی خدمت میں آیا اور صورت واقعہ عرض کی۔ شیخ قطب الدین قدس سرہ نے ایک تیر قبائچہ کے ہاتھ میں دے کر فرمایا اس تیر کو لشکر کفار کی جانب پھینک دے قبائچہ نے ایسا ہی کیا صبح ہوتے جب لوگوں نے دیکھا کہ وہاں ایک کافر کا بھی پتہ و نشان نہیں تھا۔ حضرت سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کا کی کی زیارت کے لیے جاتا تھا اثنائے راہ میں میرے دل میں گذرا کہ جو شخص ان بزرگوں کے مرقد کی زیارت کے لیے جاتا ہے انہیں اس شخص کی کچھ خبر بھی ہوتی ہے کہ نہیں؟ یہ بات میرے دل میں کھٹک رہی تھی اور میں شیخ کے مرقد کی طرف چلا جا رہا تھا جب میں روضۂ مقدسہ کے قریب پہنچ کر مشغول ہوا تو اس مشغولی کی اثنا میں روضۂ متبرکہ سے یہ بیت میں نے سنی۔
مراز ندہ پندار چون خویشتن
من آیم بجان گرتو آئی بہ تن
(تو مجھے اپنی طرح زندہ جان اگر تو میری قبر پر جسم کے ساتھ آتا ہے تو میں روح کے ساتھ آتا ہوں)
حضرت سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے ہیں کہ شیخ قطب الدین بختیار کاکی ابتداء حال میں اوش میں سکونت رکھتے تھے اس شہر میں ایک ویران و غیر آباد مسجد تھی جس میں ایک بلند مینارہ تھا اور اسے ہفت مینارہ کہا کرتے تھے۔ شیخ کو ایک دعا پہنچی تھی جو حقیقت میں تو ایک دعا تھی مگر ہفت دعا کے ساتھ شہرت رکھتی تھی اور جس کی نسبت مشہور تھا کہ جو شخص اسے ہفت منارہ پر جا کر پڑہتا ہے اسے مہتر خضر کی ملاقات میسر ہوجاتی ہے۔ غرض جناب شیخ قطب الدین کو اس بات کا اشتیاق غالب ہوا کہ مہتر خضر سے ملاقات کریں اور اس دُھن میں آپ رمضان المبارک کی رات اس مسجد میں تشریف لے گئے۔ دوگانہ ادا کر کے اس منارہ پر تشریف لے گئے اور ہفت دعا پڑھ کر نیچے تشریف لے آئے جب مسجد سے باہر قدم رکھا تو ایک شخص کو دروازے پر کھڑا دیکھا جس نے شیخ قطب الدین پر ایک چیخ مار کر کہا کہ ایسے بے وقت تو یہاں کیا کر رہا تھا شیخ نے جواب دیا کہ میں یہاں مہتر خضر کی ملاقات کے اشتیاق میں آیا تھا لیکن افسوس کہ دولتِ ملاقات میسر نہیں ہوئی اب میں اپنے گھر جاتا ہوں۔ اس شخص نے کہا تم خضر سے مل کر کیا کرو گے وہ ایک سر گرداں اور سیاح شخص ہے تمہیں اس کے دیکھنے اور ملاقات کرنے سے کیا فائدہ ہوگا۔ اسی اثنا میں اس نے شیخ سے یہ بھی پوچھا کہ کیا تمہیں دنیا کی خواہش ہے اور اس کے تجملات کو اپنا مطیع بنانا چاہتے ہو شیخ نے جواب دیا کہ نہیں۔ کہا کیا تم نے کسی کا کچھ قرض دینا ہے شیخ نے فرمایا نہیں۔ اس شخص نے کہا پھر خضر کی ملاقات کا کیوں مشتاق ہے۔ ان تمام باتوں کے بعد اس نے یہ بھی کہا اسی شہر میں ایک شخص ہے کہ خضر بارہ دفعہ اس کے درِ دولت پر حاضر ہوا ہے اور اندر جانے کی اجازت نہیں پائی ہے۔ ان دونوں حضرات میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک مرد نورانی لباس میں سر سے پاؤں تک غرق تھا نمودار ہوا۔ یہ شخص جو ابھی شیخ سے کھڑا باتیں کر رہا تھا بڑی تعظیم و اعزاز کے ساتھ اس کے قریب گیا اور پاؤں میں گرپڑا۔ شیخ قطب الدین قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں کہ جب وہ نورانی لباس سے آراستہ شخص میرے قریب پہنچا تو اس شخص کی طرف متوجہ ہوکر کہا جو ابھی مجھ سے باتیں کر رہا تھا کہ اس درویش کو نہ تو کسی کا قرضہ ہی دینا ہے اور نہ دنیا طلبی کی خواہش ہے بلکہ صرف تیری ملاقات کی آرزو رکھتا ہے۔ شیخ فرماتے ہیں اسی اثناء میں اذان ہوگئی اور ہر طرف سے درویش و صوفی جوق در جوق پیدا ہوگئے جماعت کے لیے صف آرا ہوئے اور تکبیر کہی گئی ایک شخص آگے بڑھا اور نماز پڑھائی۔ ازاں بعد تراویح شروع ہوئی اور قاری نے نہایت خوش الحانی اورقاعدہ کے ساتھ بارہ سیپارے پڑھے اسی اثناء میں میرے دل میں گذرا کہ اگر قاری کچھ اور زیادہ پڑھتا تو بہت بہتر ہوتا۔ جب نماز ہوچکی تو ہر شخص ایک طرف چلا گیا اور میں بھی اپنی جگہ چلا آیا۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ تبریزی شیخ قطب الدین قدس اللہ سرہ العزیز کے مکان پر آپ کی ملاقات کے لیے آئے شیخ قطب الدین (خدا ان کے مرقد کو منور کرے) شیخ جلال الدین کے استقبال کے لیے گھر سے باہر نکلے۔ شیخ کا مکان گلی کے انتہائی درجہ پر واقع ہوا تھا اور اس سے درے درے بہت سی گلیاں اور مکانات تھے شیخ قطب الدین قدس اللہ جب گھر سے نکلے تو شارع عام کو چھوڑ کر تنگ اور سکڑی گلی میں سے ہو کر باہر آنے لگے ادھر سے شیخ جلال الدین نے بھی شارع عام کو نظر انداز کردیا اور تنگ گلی میں ہوکر شیخ کے مکان کی طرف رخ کیا اور دونوں حضرات باہم ملاقی ہوگئے قدس اللہ سرہما۔ اس کے علاوہ ایک اور دفعہ بھی بادشاہ اعزالدین کی مسجد میں جو حمام کے متصل واقع ہے یہ دونوں حضرات ایک جگہ جمع ہوگئے تھے۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت شیخ قطب الدین سرہ العزیز کی خدمت میں گردش فلکی اور افلاس و محتاجی کی شکایت پیش کی آپ نے اس کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ اگر میں تجھ سے یہ کہوں کہ میری نظر خدا کے عرش مجید پر پڑتی ہے تو کیا توا س کو باور کرے گا اس نے کہا کیوں نہیں میں ضرور یقین کے ساتھ کہوں گا کہ آپ اس میں بالکل صادق القول ہیں اس وقت شیخ نے فرمایا کہ جب تو اس قدر جانتا ہے تو پہلے ان چاندی کی اَسّی تھیلیوں کو جو گھر میں مخفی کر رکھی ہیں کھا لے پھر افلاس کی شکایت کی جیو وہ شخص شیخ کی یہ بات سن کر سخت شرمندہ ہوا۔ آپ کے قدموں کی زمین کو بوسہ دیا اور لوٹ گیا۔ منقول ہے کہ شیخ قطب الاسلام حضرت قطب الدین بختیار کاکی قدس اللہ سرہ العزیز فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں اور قاضی حمید الدین ناگوری باہم سفر کر رہے تھے جب ہم دونوں دریا کے کنارے پہ پہنچے تو مجھے بھوک معلوم ہوئی ابھی بہت تھوڑا انتظار کرنا پڑا تھا کہ ایک بکری جَو کی دو روٹیاں منہ میں لیے ہوئے ظاہر ہوئی اور آگے آکر سامنے رکھ دیں اور فوراً چلی گئی ہم نے انہیں سیر ہوکر کھایا اور باہم کہا کہ یہ غیبی بکری تھی اور اس وقت ہمارے کھانے کا سامان غیب سے کیا گیا اسی اثناء میں دیکھتے کیا ہیں کہ ایک بچھو پانی کے قریب بڑی تیزی اور عا جلانہ حرکت کے ساتھ جا رہا ہے لیکن تھوڑی دور پہنچ کر اس نے اپنے تئیں پانی میں ڈال دیا ہم نے سوچ کر کہا کہ اس میں کوئی حکمت ضرور مخفی ہے اس کے پیچھے پیچھے چلیں اور حکمتِ خدا وندی کا تماشا کریں بچھو پانی میں گر کر دریا کے پاٹ کو عبور کر گیا تھا اور اس پار کبھی کا پہنچ چکا تھا ہم دست بدعا ہوئے دریا خدا وندی حکم سے پھٹ گیا بیچ میں خشک اور نہایت صاف و ہموار رستہ ظاہر ہوگیا۔ ہم بہت جلد دریا کو عبور کر کے پار جا پہنچے۔ دیکھتے ہیں کہ ایک درخت کے نیچے کوئی پڑا سوتا ہے اور ایک نہایت زہریلا اور خونخوار سانپ اسے ہلاک کرنے کے لیے آگے بڑھا چلا آ رہا ہے۔ یہ بچھو جس کے پیچھے پیچھے ہم دونوں چلے جا رہے تھے دفعۃً جست کر کے سانپ پر پہنچا اور اسے فنا کر دیا۔ ازاں بعد ہماری نظروں سے غائب ہوگیا۔ ہم باین خیال اس شخص کے پاس گئے کہ اس سے ملاقات کریں۔ کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑا ذی وجاہت اور مقتدر بزرگ ہے۔ پاس جا کر دیکھتے ہیں تو وہ ایک مخمور مست شرابی ہے جو قے کیے ہوئے پڑا ہے۔ ہم یہ صورت دیکھ کر نہایت شرمندہ ہوئے اور باہم کہنے لگے کہ یہ شخص ایسا نا فرمان اور خدا کی اس کے بارہ میں یہ نگاہ داشت۔ بہت ہی تعجب کی بات ہے ہم دونوں آپس میں یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ہاتفِ غیب نے آواز دی کہ اے عزیزو! اگر ہم صرف پارسا اور نیک کاروں کی ہی حفاظت کریں تو بتاؤ مفسدین اور تباہ کاروں کی کون نگاہ داشت کرے گا۔ اسی اثناء میں وہ شخص بھی نیند سے چونک پڑا ہم تمام کیفیت اس پر دہرائی۔ وہ شرمندہ ہوا اور اس فعل سے توبہ کی اور واصلوں میں سے ایک واصل ہوگیا۔ شیخ الاسلام قطب الدین جب اس واقعہ کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا اے درویش جب وقت آجاتا ہے اور نسیمِ لطف چلنے لگتی ہے تو گو کوئی لاکھ خراباتی کیوں نہ ہو لیکن وہ سجادہ نشین بن جاتا ہے اور اگر خدا نخواستہ قہری نسیم چلنے لگتی ہے تو اگرچہ کوئی لاکھ سجادہ نشین کیوں نہ ہو مگر اسے رحمت سے دور کر کے خرابات میں ڈال دیتی ہے۔ منقول ہے کہ ملک اختیار الدین ایبک حا جب کچھ نقدی ہدیۃً شیخ الاسلام قطب الدین قدس سرہ کی خدمت میں لایا اور نہایت عاجزی سے پیش کی شیخ الاسلام نے اسے نگاہِ قبول سے نہ دیکھا اور جس بورئیے پر تشریف رکھتے تھے اس کا ایک کونا اٹھا کر ملک اختیار الدین کو دکھایا۔ دیکھتا ہے کہ سونے کے ڈہیروں کا دریا پڑا بہہ رہا ہے ازاں بعد آپ نے فرمایا کہ اسے لے جاؤ کیونکہ میں تمہارے لائے ہوئے ہدیہ کی حاجت نہیں رکھتا۔ منقول ہے کی شیخ الاسلام شیخ معین الدین حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندوں کا اجمیر کا حدود میں ایک گاؤں تھا جو ہمیشہ آباد ہونے کی وجہ سے معقول آمدنی دیتا تھا لیکن وہاں تحصیل دار اور مقطعان مقرر داشت میں مزاحمت کرتے تھے آخر کار شیخ کے فرزندوں نے آپ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ دہلی جا کر بادشاہ سے مقرر داشت لے آئیں۔ خواجہ کو مجبوراً اجمیر سے دہلی آنا پڑا جب آپ دہلی میں آئے تو شیخ قطب الدین قدس اللہ سرہ العزیز کے پاس ٹھرے شیخ قطب الدین قدس سرہ نے یہ حال معلوم کر کے خواجہ سے عرض کیا کہ بادشہ کے پاس آپ کے تشریف لے جانے کی ضرورت نہیں ہے آپ مکان پر ہی تشریف رکھیں میں جا کر مقرر داشت لے آتا ہوں چنانچہ جناب شیخ الاسلام حضرت شیخ قطب الدین قدس اللہ سرہ سلطان شمس الدین التمش کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ کے اس یکایک اور دفعۃً شاہی دربارہ میں چلے آنے سے سلطان شمس الدین کو نہ صرف تعجب بلکہ تعجب کے ساتھ حیرت ہوئی کیونکہ آپ اس سے پیشتر کبھی سلطان کے پاس نہیں گئے تھے بلکہ چند مرتبہ سلطان آپ کی ملاقات کے لیے آیا تھا اور شرف ملاقات سے مشرف و ممتاز ہونے کی التماس بھی کی۔ لیکن آپ نے اسے اپنے پاس آنے کی اجازت نہیں دی۔ الغرض جب شمس الدین التمش سے آپ کی ملاقات ہوئی تو اس وقت بادشاہ کے حکم سے مقرر داشت کا فرمان لکھا گیا اور اس کے ساتھ اشرفیوں کی چند تھیلیاں آپ کی نذر کی گئیں۔ اس مجلس میں رکن الدین حلوائی جو خطہ اودھ کا مشہور نامور حاکم تھا آیا۔ اور شیخ سے بلند تر مقام پر بیٹھ گیا۔ رکن الدین حلوائی جو خطہ اودھ کا مشہور و نامور حاکم تھا آیا۔ اور شیخ سے بلند تر مقام پر بیٹھ گیا۔ رکن الدین حلوائی کی یہ گستاخی بادشاہ کو سخت ناگوار گزری لیکن شیخ قطب الدین نے نور باطن سے بادشاہ کے تغیر مزاج کو معلوم کر کے فریاد کی کہ یہ کوئی گستاخی اور بے ادبی کی بات نہیں ہے بلکہ نفس الامر میں بات یہ ہے کیونکہ جب حلوا اور کاک ایک جگہ موجود ہوں تو حلوے کو کاک کے اوپر رکھنے کا دستور ہے پھر اگر حلوائی کاکی سے اونچی جگہ بیٹھ جائے تو کون سی گستاخی کی بات ہے۔ الغرض شیخ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ بادشاہ سے رخصت ہوئے اور مقرر داشت کا فرمان اور بادشاہ کا ہدیہ شیخ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ کے رو برو رکھ دیا۔ جب شیخ معین الدین نے خلق کے اس اعتقاد اور شہرت کو جو شیخ قطب الدین کے بارہ میں تھی ملاحظہ فرمایا تو ایک دن آپ نے شیخ الاسلام سے فرمایا کہ یہ تم نے کیا کر رکھا ہے تمہارا گمنامی اور گوشہ کے دائرے میں رہنا بہت بہتر اور انسب ہے شیخ قطب الدین نے عرض کیا کہ اس میں بندہ کا کوئی قصور نہیں ہے یہاں کے لوگوں کا حسن ظن ہے۔
حضرت سلطان المشائخ سے لوگ نقل کرتے ہیں کہ جب شیخ معین الدین اجمیر سے دہلی میں رونق افروز ہوئے تو اس زمانہ میں شیخ نجم الدین صغرا بھی دہلی میں موجود تھے اور شیخ معین الدین اور شیخ نجم الدین میں مدت سے سلسلہ محبت قائم تھا چنانچہ جب شیخ معین الدین کو معلوم ہوا کہ شیخ نجم الدین دہلی میں موجود ہیں تو آپ ان کی ملاقات کے لیے تشریف لے گئے اس وقت شیخ نجم الدین اپنے مکان کے صحن میں چبوترا بنوا رہے تھے شیخ معین الدین کی نظر جب ان پر پڑی تو اس گرم جوشی اور محبت سے پیش نہیں آئے جیسا کہ اس پیشتر آئے تھے شیخ معین الدین نے ان کی یہ بے توجہی دیکھ کر فرمایا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیخ الاسلامی کی شہرت نے تمہارے دماغ کو برہم کردیا ہے۔ شیخ نجم الدین نے جواب دیا کہ حضرت میں تو آپ کا ویسا ہی مخلص اور بے ریا معتقد ہوں جیسا پیشتر تھا لیکن آپ نے اس شہر میں ایک ایسا مرید رکھ چھوڑا ہے جس کے مقابلہ میں میری شیخ الاسلامی کوئی شخص کوئی شخص جَو کے مقدار بھی شمار میں نہیں لاتا۔ شیخ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سن کر اول تبسم کیا پھر ارشاد فرمایا کہ تم پریشان و حیران مت ہو میں بابا قطب الدین کو اپنے ہمراہ لیے جاتا ہوں اس زمانہ میں شیخ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ کے کمالات کی شہرت نہایت قوی اور مستحکم ہوگئی تھی اور گھر گھر چرچا پھیلا ہوا تھا۔ تمام اہل شہر کی پر شوق نظریں آپ کے قدموں پر پڑ رہی تھیں اور سب آپ ہی کی طرف متوجہ تھے۔ جب شیخ معین الدین درِ دولت پر تشریف لائے تو فرمایا بختیار تم ایکا ایکی اور دفعۃً اس قدر مشہور ہوگئے ہو کہ خلق تمہارے ہاتھ سے شکایت کرنے لگی ہے اب تم یہاں سے اٹھو اور میرے ساتھ چل کر اجمیر میں رہو تم بیٹھے رہنا اور میں تمہارے آگے کھڑا رہوں گا۔ شیخ قطب الدین نے فرمایا۔ مخدوم! بھلا میری طاقت ہے؟ میرا تو اتنا بھی رتبہ نہیں کہ مخدوم کے آگے کھڑا ہو سکوں پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ حضور کے سامنے بیٹھا رہوں۔ الغرض اس مرتبہ شیخ قطب الدین جناب شیخ معین الدین کے ہمراہ روانہ اجمیر ہوئے۔ اس خبر سے تمام شہر دہلی میں ایک تہلکہ پڑگیا اور ہر طرف کہرام مچ گیا تمام اہل شہر سلطان شمس الدین کے ساتھ آپ کے پیچھے نکلے جس جگہ شیخ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ قدم رکھتے تھے خلائق اس جگہ کی خاک کو تبرکاً اٹھا لیتی تھی اور انتہا درجہ کی بے قراری و زاری کرتی تھی۔ شیخ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ صورت دیکھی تو فرمایا۔ بابا بختیار! تم یہیں رہو کیونکہ خلائق تمہارے جانے سے اضطراب و بے قراری میں ہے میں ہر گز اس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ بے شمار دل خراب و کباب ہوں۔ جاؤ میں نے اس شہر کو تمہاری پناہ میں چھوڑا۔ پس سلطان شمس الدین نے شیخ کی سعادت قدم بوسی حاصل کی اور شیخ قطب الدین کے ہمراہ نہایت خوشی و شادمانی کے ساتھ شہر کی طرف متوجہ ہوا ادھر شیخ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اجمیر کی طرف عنانِ توجہ مبذول فرمائی۔
شیخ الاسلام قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے دار دنیا سے دارِ عقبیٰ میں انتقال کر جانے کا بیان
حضرت سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ عید کا دن تھا شیخ قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ عید گاہ سے لوٹ کر آتے تھے رستہ سے اس مقام پر تشریف لے گئے جہاں اب آپ کا روضہ متبرکہ ہے اس سے پیشتر یہ زمین افتادہ اور غیر آباد تھی۔ یہاں کوئی قبر تھی نہ گنبد نظر آتا تھا شیخ جب اس مقام پر آئے تو کھڑے ہوکر متامل ہوئے آپ کے عزیز و اقارب نے جو برابر میں صف آرا تھے التماس کی حضور! آج عید کا دن ہے اور خلق اس بات کی منتظر ہے کہ مخدوم گھر میں تشریف لا کر کھانا تناول فرمائیں آپ کے یہاں ٹھہرنے اور تاخیر کرنے کی کیا وجہ ہے۔ شیخ نے فرمایا کہ مجھے اس سر زمین سے اہل کمال کے دلوں کی بو آتی ہے۔ آپ نے اسی زمانہ میں اس زمین کے مدعی کو بلایا اور خاص اپنے مال میں سے قیمت دے کر اس زمین کو خرید لیا اور فرمایا کہ میرا مدفن یہی زمین ہے۔ حضرت سلطان المشائخ جب اس جملہ پر پہنچے تو آپ کو سخت رقّت ہوئی آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور فرمایا کہ شیخ الاسلام باوجود اس بلند اور رفیع مرتبہ کے فرماتے تھے کہ اس زمین سے اہل کمال کے دلوں کی بو آتی ہے دیکھنا چاہیے کہ اس سر زمین میں کون کون لوگ پاؤں پھلائے سوتے ہیں سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے تھے کہ شیخ الاسلام قطب الدین قدس سرہ کو انتقال کے زمانہ میں چار شبانہ روز برابر تحیر رہا اور یہ قصہ یوں ہوا شیخ علی سکری رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں محفل سماع گرم تھی جس میں شیخ قطب الدین نور اللہ مرہ قدہ بھی موجود تھے قوال یہ قصیدہ پڑھ رہا تھا۔
کشتگان خنجر تسلیم را
ھر زمان از غیب جانِ دیگر است
(خنجر تسلیم کے مقتولوں کے غیب سے ہر وقت ایک اور ہی روح عنایت ہوتی ہے۔)
شیخ قطب الدین قدس اللہ سرہ العزیز میں اس بیت نے اس قدر اثر کیا کہ آپ مدہوش و متحیر ہوگئے۔ اسی حال میں گھر تشریف لائے اور چار رات دن برابر یہی کیفیت طاری رہی جب آپ کو کچھ ہوش آیا تو اسی بیت کے اعادہ کرنے کا حکم فرماتے۔ حاضرین بار بار پڑھتے اور آپ اس طرح تحیر میں محو ہوجاتے لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ نماز ادا کر کے پھر اسی بیت کو پڑھاتے لوگ بار بار پڑھتے اور شیخ الاسلام تحیر میں مستعرق ہوجاتے اور ایک عجیب و غریب حالت و حیرت پیدا ہوتی۔ چار شبانہ روز یہی کیفیت رہی اور انجام کار پانچویں رات اس فانی اور جلد گذر جانے والی دنیا سے عالم باقی کی طرف رحلت فرما ہوئے۔ شیخ بدر الدین غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جس رات شیخ کا انتقال ہوا میں وہاں موجود تھا جب شیخ کے انتقال کا وقت قریب ہوا تو مجھے یوں ہی غنودگی سے آگئی اس غنودگی میں میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ شیخ اپنے مقام سے نکل کر آسمان کی طرف جاتے ہیں اور مجھ سے فرماتے ہیں بدر الدین! خدا کے دوستوں کو موت نہیں ہوتی جب میں بیدار ہوا تو شیخ دارِ بقا کی طرف رحلت فرما ہوچکے تھے۔ جس مجلس میں شیخ کا واقعہ ہوا تھا شیخ احمد نہروانی رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے۔ کاتب حروف نے مولانا فخر الدین زرادی کے ایک رسالہ میں جو آپ نے سماع کے بارہ میں تالیف فرمایا ہے لکھا دیکھا ہے کہ شیخ قطب الدین (خدا ان کے مرقد کو روشن و منور رکھے) مجلس سماع میں عالم تحیر اور مدہوشی میں محو ہوگئے تھے اس زمانہ میں ایک نہایت تجربہ کار اور حاذق طبیب تھا جو شمس الدین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ جب شیخ کی یہ حالت ہوئی تو لوگوں نے اسے بلا کر دکھایا تاکہ مرض کی تشخیص کرے اور زحمت کے مادے کو دریافت کر کے علاج کرے لیکن شمس الدین نے آپ کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہی کہہ دیا کہ شیخ کو کوئی جسمانی مرض لاحق نہیں ہوا ہے بلکہ آپ کی نبض مرد می پر دلالت کرتی ہے یعنی آپ کا باطن آتش محبت سے جل گیا ہے اور دل جگر پگھل چکا ہے۔ حقیقت میں طبیب مذکور اپنے اس قول میں نہایت سچا اور استدلال میں بہت ہی مصیب تھا۔ اس بارہ میں جس شخص نے ذیل کے دو شعر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں کہے ہیں وہ بہت ہی خوب اور میعنی خیز ہیں۔
قد لسعت حبۃ الھوی کبدی |
|
فلاطبیب لہ ولا راق |
|
’’یعنی میرے جگر کو محبت کا ایسا ناگ ڈس گیا ہے جس کے لیے کوئی طبیب ہی کافی ہوسکتا ہے نہ کوئی منتر ہی پڑھنے والا۔ البتہ جس دوست پر میں فریفتہ ہوں اس کے پاس میرا افسون اور تریاق ہے‘‘۔ قاضی محی الدین کا شانی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سلطان المشائخ کی خدمت میں بیان کرتے تھے کہ جس سنہ میں سلطان شمس الدین التمش کا انتقال ہوا اسی سال شیخ الاسلام قطب الدین بختیار قدس اللہ سرہ العزیز نے اس دار نا پائدار سے عالم جا ودانی میں انتقال فرمایا۔ نیز اس سنہ میں مولانا قطب الدین کا شانی نے بھی وفات پائی۔ اس نقل سے حضرت سلطان المشائخ نے سلطان شمس الدین التمش کی تاریخ انتقال نکالی اور یہ تاریخی بیت ارشاد فرمائی۔
بسال ششصد و سی وسہ بو داز ھجرت
نماند شا ھجھان شمس دین عالمگیر
(۶۳۳ ہجری میں شاہ جہان۔ شمس دین عالمگیر۔ یعنی شیخ الاسلام نے وفات پائی۔)
لیکن شیخ الاسلام قطب الدین قدس سرہ کا انتقال چودہویں ربیع الاول سنہ مذکور کو واقع ہوا ہے۔ کاتب حروف نے ایک بزرگ کی زبان سے سنا ہے کہ شیخ الاسلام بختیار نور اللہ مرقدہ کے انتقال کے بعد پورے دس سال تک قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ زندہ رہے لیکن جب آپ کی وفات کا زمانہ قریب آیا تو حاضرین کو وصیت کی کہ مجھے شیخ قطب الدین کی پائنیتی میں دفن کرنا چنانچہ جب آپ کا انتقال ہوا تو قاضی حمید الدین ناگوری کے فرزندوں کی ہر گز خوشی نہ تھی کہ آپ کو شیخ قطب الدین کے قدموں میں دفن کریں۔ لیکن قاضی صاحب کو وصیت نے انہیں مجبور کردیا انجام کار بہت حیث و بحث کے بعد شیخ کے قدموں میں قاضی صاحب دفن کیئے گئے۔ لیکن آپ کے فرزندوں نے قبر کا چبوترہ شیخ کے روضۂ متبرکہ سے کسی قدر اونچا بنوایا قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فرزندوں سے خواب میں فرمایا کہ تم نے میری قبر کا چبوترہ بلند کر کے مجھے جناب شیخ الاسلام قطب الدین قدس اللہ سرہ لعزیز کے روے مبارک میں سخت شرمندہ کیا۔ مجھے تمہارے اس خلاف ادب فعل کی وجہ سے شیخ الاسلام کے سامنے اس درجہ ندامت ہوئی ہے کہ آپ کے آگے سر اٹھا نہیں سکتا۔ حضرت سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ میں نے ان دونوں تربتون کے درمیان یعنی جناب شیخ الاسلام قطب الدین قدس سرہ کی پاءینتی اور قاضی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ کے سرہانے بار ہا نماز پڑھی ہے اور بہت ذوق و راحت پائی ہے۔
ازاں بعد آپ نے فرمایا کہ یہ اثر قبروں اور مکانات کا نہیں ہے بلکہ ان دونوں بزرگوں کا اثر ہے کیونکہ ایک جانب ایک شاہِ اسلام پڑا سوتا ہے اور دوسری طرف دوسرا بادشاہ دین آرام فرما ہے۔