شیخ علاؤ الدین رحمتہ اللہ علیہ
شیخ علاؤ الدین رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
مشائخ طریقت کے افضل اولیائے حقیقت میں اکرم شیخ علاؤ الملۃ والدین ابن شیخ بدر الدین سلیمان ہیں جو علو درجات اور رفعت مقامات اور شدت مجاہدات اور ذوق مشاہدات میں اپنے زمانہ میں نظیر نہیں رکھتے تھے اور بذل و ایثار میں بے مثل تھے۔ ظاہر و باطن کی طہارت کے مبالغہ میں مشائخ وقت میں کوئی آپ کا دعویدار نہیں تھا۔ یہ بزرگوار سولہ سال کے تھے کہ شیخ شیوخ العالم کے سجادے پر اپنے والد بزرگوار شیخ بدر الدین سلیمان کی جگہ بیٹھے اور کامل چون سال تک اس سجادہ کا حق کماینبغی ادا کیا یہاں تک کہ آپ کی عظمت و کرامت کا شہرہ آپ کی عزیز و قیمتی زندگی ہی میں تمام عالم میں مشہور ہوگیا تھا اور آپ کا اسم مبارک اولیاء اللہ کے ناموں کی فہرست میں مذکور و معروف ہوگیا تھا چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد دیار اجودھن اور دیپالپور اور جھالی میں جو کشمیری کی سمت میں واقع ہیں ان شہروں کے باشندوں نے غایت محبت اور اعتقاد کی وجہ سے بہت سے فرضی مقامات بنائے اور قبریں تیار کیں اور آپ کے روضۂ متبرکہ کے نام سے تبرک حاصل کرتے تھے اور ان مواضع میں صدقات و خیرات کرتے اور ختم کرتے تھے۔ کاتب حروف نے اپنے والد بزرگوار سید مبارک محمد کرمانی رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ فرماتے تھے شیخ علاؤ الدین قدس اللہ سرہ العزیز میرے رضاعی بھائی تھے اور مجھ میں اور شیخ علاؤ الدین میں حق رضاعت ثابت تھا اور انہوں نے میری والدہ کا دودھ پیا تھا۔ علاوہ اس کے میں نے اور انہوں نے مولانا بدر الدین اسحاق سے ایک جگہ قرآن مجید پڑہا تھا چنانچہ اس کی مفصل کیفیت مولانا بدر الدین اسحاق کے ذکر میں بیان ہوچکی ہے۔ نیز میرے والد بزرگوار فرماتے تھے کہ ایک دن پچپن کے زمانہ میں میں اور شیخ علاؤ الدین شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر تھے۔ شیخ شیوخ العالم تو چار پائی پر تشریف رکھتے تھے اور ہم دونوں چار پائی کی پٹی پکڑے ہوئے کھڑے تھے۔ اسی اثناء میں شیخ شیوخ العالم نے دہن مبارک میں پان رکھا اور ازارہِ شفقت اور فرزند پروری کے دہن مبارک سے پان نکال کر دستِ مبارک میں لیا اور شیخ علاؤ الدین کے منہ میں رکھا اور جو کچھ اس میں باقی رہا تھا میرے منہ میں دیا۔ ازاں بعد وضو کرنے کے لیے چار پائی سے نیچے اترے اور چوکی پر بیٹھے۔ ایک درویش عیسے نام تھے جو خلوت کی حالت میں آپ کی خدمت میں سر گرم و مستعد رہتے اور جس حرم محترم کی باری ہوتی اسے شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں بھیجتے اور شغل کی نوبت مرعی رکھتے تاکہ اس کام میں عدل و انصاف کی پوری پوری رعایت رہے۔ الغرض خواجہ عیسی نے شیخ شیوخ العالم کو وضو کرایا اور مصلاً سیدھا کیا۔ شیخ شیوخ العالم وضو کر کے مصلے پر آبیٹھے جس اثناء میں شیخ شیوخ العالم وضو میں مشغول تھے تو شیخ علاؤ الدین کھیلتے کھیلتے مصلے پر جا بیٹھے اور خواجہ عیسی نے شیخ علاؤ الدین کو دیکھا کہ مصلے پر بیٹھے ہیں اس پر شیخ شیوخ العالم نے ایک خوش آئندہ تبسم کیا اور خواجہ عیسی سے اس طرف کی زبان میں فرمایا کہ منجن ہ بھی۔ یعنی بچہ کو بیٹھا رہنے دو۔ شیخ شیوخ العالم کے مبارک نفس کی برکت سے شیخ علاؤ الدین قریب دو قرن کے شیخ شیوخ العالم کے سجادہ پر بیٹھے اور اس محویت و استغراق کے ساتھ بیٹھے کہ کسی موقع پر آپ کا قدم مبارک جامع مسجد کے دروازہ کے علاوہ اور کہیں نہیں گیا۔ اگر بادشاہان وقت آپ سے ملاقات کرنے آتے تو آپ اپنے مقام سے کبھی ہلتے تک نہ تھے اور خلق کو اونٹ کی میگنی کی برابر سمجھتے تھے اگر کوئی شخص بیعت کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ اسے جناب شیخ شیوخ العالم کے روضہ متبرکہ کے حوالے کرتے اور خادم سے فرماتے کہ انہیں بابا کی پائنیتی لے جاؤ اور کلاہ دو۔ ہمیشہ روزہ رکھنا شیخ علاؤ الدین کا خاصہ تھا۔ کبھی کسی شخص نے ان بزرگوار کو دن میں کھانا کھاتے نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ وفات کے زمانہ تک بجز عیدین اور ایام تشریق کے افطار نہ کرتے اور ان پانچ روز کے علاوہ کسی وقت اور کسی حال میں افطار نہیں کرتے تھے اور جب دوپہر گزر لیتی تب افطار کرتے آپ کے خدام روغنی روٹیاں اس قدر پر پتلی پکاتے کہ سیر بھر کی آٹھ روٹیاں تک ہوتیں۔ آپ ان میں سے دو روٹیاں نہار قدرے دودھ کے ساتھ نوش کرتے روٹی اور دودھ دونوں مل کر سیر بھر کے قریب لازمہ ہوتا لیکن آپ بہت تھوڑی مقدار پر اکتفا فرماتے۔ اگرچہ افطار کے وقت اس کھانے کے علاوہ بہت سا حلوا اور روٹیاں آپ کے سامنے دستر خوان پر چُنی جاتیں لیکن آپ اس میں سے کچھ بھی تناول نہیں کرتے اور حلوے کے طباق ان لوگوں کو بھیجتے جس کی نسبت آپ کی خاطر مبارک اقضا کرتی کیونکہ آپ کے خدام اور دیگر مہمان و مسافر کھا پی کر سو رہتے تھے۔ جماعت خانہ میں جو دونوں وقت درویشوں کے سامنے دستر خوان بچھایا جاتا تھا ان کے علاوہ بہت خاص و عام کو اس میں سے روٹیاں پہنچتیں اور ایک کثیر مخلوق کو آپ کے دستر خوان سے حصہ پہنچتا۔ جب شیخ علاؤ الدین مقام خلوت سے شیخ شیوخ العالم کے روضۂ متبرکہ میں آتے تو بہت سے درویش و محتاج شیخ کی فیاضی و سخاوت کا شہرہ سن کر اس مقام پر پہلے ہی سے جمع ہوجاتے اور صف باندھ کر کھڑے ہوجاتے آپ صف کی ابتدا سے لوگوں کو دینا شروع کرتے اور ہر ایک کو کافی مقدار روپے کی عنایت فرماتے اور برابر دیتے ہوئے گزرجاتے اگر کوئی شخص ایک دفعہ لے کر اپنے جگہ سے ہٹ کر دوسرے مقام پر صف کے درمیان آ کھڑا ہوتا اور لوگ شیخ کو خبر دیتے کہ یہ شخص ایک دفعہ لے چکا اب دوبارہ لینے کو یہاں آکھڑا ہوا ہے شیخ اسے پہلے مقدار سے دو چند دلوارتے اور اگرچہ کئی مرتبہ یہ حرکت کرتا لیکن آپ اس پر غصے نہ ہوتے اور کسی طرح کی زجر و توبیخ نہیں فرماتے اور اس سے شیخ کا مقصود یہ ہوتا کہ کوئی شخص مناعا للخیر کی وعید میں داخل نہ ہو۔ جو لوگ شیخ کی خدمت خاص میں مشغول ہوتے اور جو لوگ آپ کے وضو کے لیے پانی مہیا کرتے اور آپ کے کپڑے مبارک سیتے یا دھوتے تو کسی مخلوق کو مجال نہ ہوتی کہ انہیں زرہ بھر صدمہ اور تکلیف پہنچا سکتا اور اگر کس کا ان پر ہاتھ پہنچتا یا کوئی شخص کسی طرح کا صدمہ پہنچاتا شیخ اسے خانقاہ سے باہر نکال دیتے۔ آپ طہارت و پاکیزگی میں انتہا درجہ کی کوشش کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ذیل کی حکایت سے یہ بات بہت اچھی طرح ثابت ہوتی ہے۔
منقول ہے کہ جس زمانہ میں شیخ الاسلام بہاؤ الدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے شیخ رکن الدین دہلی سے ملتان جاتے تھے تو اثنائے راہ میں شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے روضہ متبرکہ کی زیارت کےلیے تشریف لے گئے۔ جب آپ روضۂ متبرکہ سے باہر تشریف لائے تو شیخ علاؤ الدین کے بغلگیر ہوئے اور کہا خدا تعالیٰ نے تمہیں وہ استقامت بخشی ہے کہ کوئی شخص آپ کے پاس بیٹھ کر ہلنے تک کی طاقت نہیں رکھتا لیکن میں بسبب چند لوگوں کی قرابت کے جو اس سفر میں میرے ساتھ ہیں مجبور ہوں اور وہ مجھے کشان کشان لیے چلتے ہیں۔ اس کے بعد ایک نے دوسرے کو رخصت کیا۔ جب شیخ علاؤ الدین رحمۃ اللہ اپنے مقام پر آئے فوراً کپڑے اتارے اور تازہ غسل کر کے دوسرے کپڑے پہنے اور سجادہ پر آبیٹھے بعض لوگوں نے شیخ رکن الدین کی خدمت میں یہ کیفیت عرض کی اور کہا یہ کس قدر تکبر و رعونت ہے کہ آپ جیسے پاک اور پاک زادہ کے معانقہ کے سبب سے غسل کیا جائے اور ان کپڑوں کو اتار کر دوسرے کپڑے پہنے جائیں شیخ رکن الدین نے فرمایا کہ تم لوگ مولانا علاؤ الدین کی قدر و منزلت کیا جانو حقیقت میں وہ اسی قابل ہیں کہ ایسا کریں کیونکہ ہم میں سے دنیا کی بو آتی ہے اور وہ اس سے مبرا ہوکر زندگی بسر کرتے ہیں اس تمثیلی حکایت کے بعد ہم اصل مدعا کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ظالموں اور سرکشوں کے دست ظلم سے چھوٹ کر شیخ شیوخ العالم کے روضہ متبرکہ کی جماعت خانہ میں چلا آئے تو کسی کی مجال نہ ہوتی کہ اس مظلوم اور جفا کش کو بزور جبر روضۂ متبرکہ کی حرم سے باہر لا سکے اگرچہ بادشاہ وقت ہی کیوں نہ ہوتا لیکن اس دین و دنیا کے بادشاہ کے خوف و ہیبت سے لرزتا۔ جب شیخ علاؤ الدین نے سفر آخرت قبول کیا اور دنیا سے منہ موڑ کر رحمت حق سے جا ملے تو شیخ شیوخ العالم قدس اللہ سرہ العزیز کے روضہ متبرکہ کے پڑوس میں مدفون ہوئے اور سلطان محمد تغلق نے جو شیخ علاؤ الدین کا مرید و معتقد تھا ایک نہایت رفیع و بلند گنبد تعمیر کرایا شیخ علاؤ الدین کے دو فرزند رشید آپ کی محسوس یاد گاریں باقی رہیں جو صاحبِ عظمت و کرامت تھے۔ ایک شیخ زادۂ معظم ذی وجاہت و مکرم شیخ معز الحق والدین تھے جو علم و کرامت میں مستثنی اور عظمت و جلالت میں ممتاز تھے۔ جو شخص آپ کی مبارک اور نصیبہ در پیشانی دیکھتا فوراً معلوم کر لیتا کہ آپ خاندان کرامت و بزرگی کے چشم و چراغ ہیں آپ کی خدمت اتالیقی مولانا وجیہہ الدین پائلی کے ہاتھ میں تھی اور علم کی تحصیل میں ان کی شاگردی اختیار کی تھی آپ دین و دیانت میں حظ کامل رکھتے تھے اور اسی دین میں غلو پیدا کرنے کا یہ بد یہی نتیجہ تھا کہ آپ اپنے والد بزرگوار کی جگہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے مقام پر جلوہ آرا ہوئے اور بندگانِ خدا پر بذل و ایثار کا دروازہ کھولا۔ چند روز کے بعد سلطان محمد تغلق نے شہر دہلی میں آپ کو بلایا اور جیسا کہ چاہیے تعظیم و تکریم کی رعایت کی ازاں بعد حکم ہوا کہ مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ کی نظرِ مبارک میں سلطنت کے امورر اتمام و تکمیل کو پہنچیں کیونکہ الدین والملک توّ امان۔ یعنی دین و سلطنت دونوں ایک پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں۔ شیخ معز الدین نے بادشاہ وقت کی اس بات کو قبول کر لیا لیکن چند روز کے بعد بادشاہ کی رائے اس کو مقتضی ہوئی کہ دیار گجرات آپ کے حوالے کیے جائیں۔ شیخ معز الدین رحمۃ اللہ علیہ گجرات تشریف لے گئے اور آخر کار بتقدیر الٰہی ظالموں اور باغیوں کے ہاتھ سے شہادت کے درجہ کو پہنچے آج آپ کے روضہ متبرکہ کی برکت سے اس طرف کے تمام شہر منور و روشن ہیں۔ اور اس کے پائنتیوں کی خاک ان شہروں کے حاجتمندوں کی درد کی دوا ہے۔ شیخ علاؤ الدین کے دوسرے فرزند یعنی شیخ زادہ علی الاطلاق مقبول اہل عالم باتفاق شیخ علم الحق والدین ہیں جو تمام اوصاف حمیدہ میں اپنا نظیر نہیں رکھتے اور جگر سوز گریہ میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے۔ کلام ربانی کے حافظ اور سنت نبوی کے پیرو تھے۔ سلطان محمد تغلق آپ کے اعزاز و احترام میں انتہا درجہ کی کوشش کرتا تھا یہاں تک ہندوستان کی تمام مملکت کا شیخ الاسلام مقرر کر دیا اور لکھو کہا بندگانِ خدا کی باگ آپ کے ہاتھ میں دی اس زمانہ کے تمام مشائخ آپ کے محکوم و منقاد ہوئے اور تسلیم کی گر دنیں آپ کے آگے خم کر دیں۔
غرضکہ شیخ علم الدین و دنیا میں نہایت بزرگ و مکرم تھے اور فیاض ازل نے دینی تقدس اور دنیاوی اعزاز میں سے کوئی چیز آپ سے دریغ نہیں رکھی تھی۔ جب ان شیخ شیوخ الاسلام نے انتقال کیا تو اپنے والد بزرگوار شیخ علاؤ الدین کے متصل گنبد کے اندر مدفون ہوئے۔ شیخ علاؤ الدین کے ان دونوں فرزندوں کے بعد دو صاحبزادے یعنی دونوں حضرات کے ایک ایک فرزند باقی رہے۔ شیخ معز الدین رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادہ افضل الدین فضیل تھے جو آج اپنے والد بزرگوار اور جد عالی مقام کی جگہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین کے سجادۂ کرامت پر جلوہ فرما ہیں اور آباؤ اجداد کی صورت و سیرت میں سجادۂ معظمہ کا حق کما ینبغی اپنے سلف کے طریقہ پر ادا کرتے ہیں غایت مشغولی اور ترک و تجرید میں انتہا درجہ کی کوشش کرتے ہیں آپ کو تمام لوگ نگاہِ قبول سے دیکھتے ہیں۔ شیخ افضل الدین فضیل کی تاریخ زندگی میں جو بات سب سے زیادہ قابل تعریف ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے عام لوگوں کے لیے بذل و ایثار کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ اس خاندانِ کرامت کے معتقد امیدوار ہیں کہ حق تعالیٰ اس شیخ زادہ عالم کو سجادۂ کرامت پر مستقیم رکھے۔ شیخ شیوخ الاسلام علم الحق والدین رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے شیخ زادہ خوبصورت پسندیدہ سیرت مظہر الحق والدین ہیں جنہیں تمام دینی علوم متحضر ہیں اور جو اپنے والد بزرگوار کے بعد شیخ الاسلامی کے عہدہ سے ممتاز ہوئے۔ سلطان محمد تغلق انار اللہ برہانہ نے نہایت اعزاز و احترام کے ساتھ شیخ الاسلامی کا معزز منصب آپ کے سپرد کیا اور اس شیخ زادہ کی تعظیم و توقیر میں حد سے زیادہ کوشش کی حتی کہ اس زمانہ تک آپ ویسے ہی محترم و مکرم ہیں اور آپ کے تمام اوقات معمور ہیں۔ خدا تعالیٰ آپ کی ذات ملک صفات کو دین و دنیا کی کامرانی میں دائم و قائم رکھے آمین۔