حضرت شیخ علاؤ الدین بن شیخ بدر الدین سلیمان
حضرت شیخ علاؤ الدین بن شیخ بدر الدین سلیمان (تذکرہ / سوانح)
حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کے تمام پوتوں اور نواسوں میں زیادہ ممتاز تھے آپ علو درجات، رفعت مقامات، شدت مجاہدات اور ذوقِ مشاہدات میں یگانہ روزگار تھے۔ آپ جو دوسخا میں مشہور تھے اور طہارت ظاہری وباطنی میں بے نظیر تھے۔ چنانچہ صائم الدہر تھے (یعنی ہمیشہ روزہ رکھتے تھے) ایک پہر رات گئے آپ نماز اور اذکار ومشاغل سے فارغ ہوکر ایک روتی کو گھی لگاکر تناول فرماتے تھے۔ یہی آپ کا افطار ہوتا تھا۔ حالانکہ دوسرے لوگوں کے لیے انواع واقسام کے کھانے تیار کراتے تھے۔
ایک دن حضرت خواجہ گنجشکر چارپائی پر تشریف رکھتے تھے۔ خواجہ علاؤ الدین دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے آئے اور چارپائی کا پایہ پکڑ کر کھڑے ہوگئے۔ حضرت خواجہ گنجشکر نے اپنے منہ سے پان نکال کر اُنکے منہ میں دیا اور کرسی (یعنی چوکی) پر بیٹھ کر وضو بنانے لگے خواجہ عیسیٰ نامی درویش جو حضرت اقدس کی خلوت میں خدمت گذاری کرتا تھا وضو کرارہا تھا۔ خواجہ عیسیٰ نے مصلےٰ سیدھا کیا تاکہ وضو کے بعد حضرت اقدس اس پر نماز پڑھیں۔ لیکن خواجہ علاؤ الدین آگے بڑھ کر مصلے پر بیٹھ گئے۔ خواجہ عیسیٰ نے منع کرنا چاہا لیکن حضرت گنجشکر نے فرمایا کچھ نہ کہو بیٹھا رہے۔ ان انفاس کی برکت سے شیخ علاؤ الدین قدس سرہٗ در قرن کے قریب مسند خلافت پر متمکن رہے۔ آپ کی عمر سولہ سال کی تھی کہ آپ کے والد حضرت شیخ بدر الدین سلیمان کا وصال ہوگیا۔ چنانچہ آپ اپنے دادا حضرت گنجشکر کے سجادہ نشین ہوئے۔ اور چون سال تک حق سجادگی کما حقہٗ ادا کیا۔ چنانچہ آپ کی عظمت و بزرگی کا شہرہ ساری دنیا میں بلند ہوا۔ اور آپ کا شمار اولیائے کبار میں ہونے لگا۔ لیکن آپ نے ساری عمر جامع مسجد سے باہر کبھی پاؤں نہ رکھا۔ اور نہ کسی بادشاہ وغیرہ کے در پر تشریف لے گئے۔ بلکہ اکثر شاہانِ اسلام آپ کی زیارت کے لیے حاضر ہوتے رہے۔ لیکن آپ اپنے مقام سے ہر گز نہ ہٹتے رہے۔ جو شخص مرید ہونے کیلئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا آپ اُسے حضرت گنجشکر کے روضہ متبرکہ میں بھیج دیتے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ اسے بابا صاحب کے قدموں کی طرف لے جاؤ اور ٹوپی پہنادو۔ سلطان فیروز شاہ شہنشاہ دہلی آپ کے مریدین میں سے تھا۔ شیخ رکن الدین ابو الفتح جو حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی قدس سرہٗ کے پوتے تھے حضرت شیخ علاؤ الدین کا بہت ادب کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ دہلی سے ملتان جارہے تھے ۔ جب اجودھن پہنچے تو حضرت گنجشکر کے روضۂ متبرکہ کی زیارت کیلئے حاضر ہوئے اور حاضری کے بعد حضرت شیخ علاؤ الدین سے ملاقات کی اور دورانِ گفتگو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپکو ایسی استقامت عطا فرمائی ہے کہ کوئی شخص آپکو اپنے مقام سے نہیں ہلاسکتا۔ لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ دیہات کے رہنے والے لوگ آتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں لے جاتے ہیں۔ مراۃ الاسرار میں روایت ہے کہ خواجہ شمس سراج تاریخ فیروز شاہی میں لکھتا ہے کہ جب غیاث الدین تغلق سلطان علاؤ الدین خلجی کی طرف سے حاکم دیپالپور تھا تو ایک دن حضرت شیخ علاؤ الدین کی زیارت کے لیے اجودھن آیا۔ سلطان محمد اور سلطان فیروز بھی اسکے ہمراہ تھے۔ حضرت شیخ علاؤ الدین نے ساڑھے چار گز کپڑا سلطان تغلق کو دیا ستائیس گز سلطان محمد کو اور چالیس گز سلطان فیروز کو عطا فرمایا۔ ان تینوں نے کپڑا لے کر سر پر باندھا اور چلے گئے۔ اس وقت شیخ علاؤ الدین نے فرمایا کہ یہ تینوں آدمی بڑے جلیل القدر بادشاہ ہونگے۔ چنانچہ چند ایام سلطنت علاؤ الدین خلجی کے خاندان سے نکل کر تغلق خاندان کے ہاتھ آگئی اور سلطان غیاث الدین تغلق دہلی کا بادشاہ بن گیا۔ چار سال چند ماہ سلطنت کرنے کے بعد فوت ہوگیا۔ اسکے بیٹے سلطان محمد ستائیس سال سلطنت کے بعد رحلت کرگیا۔ اس کے بعد رحلت کرگیا۔ اس کے بعد سلطان فیروز بن رجب جو سلطان تغلق کا بھتیجا تھا دہلی کے تخت پر بیٹھا۔ اور چالیس سال تک امن دامان کے ساتھ حکومت کرتا رہا۔ وہ بھی شیخ علاؤ الدین کا مرید تھا۔ حضرت شیخ علاؤ الدین کے کرامات اور کمال بہت ہیں۔ وصال کے بعد آپ کو حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗ کے روضۂ اقدس کے قریب دفن کیا گیا۔ اور سلطان محمد شاہ تغلق نے جو آپ کا مرید و معتقد تھا آپ کے مزار پر عالیشان روضہ تیار کرایا۔ اس نے غلبۂ اعتقاد میں اجودھن، دیپالپور اور کشمیرکے اکثر پہاڑوں پر مزار تیار کرائے اور تبرکاً انکو حضرت شیخ علاؤالدین کی قبر مشہور کیا۔ جو زیارت گاہِ خلائق ہیں۔
(اقتباس الانوار)