آپ کو شیخ علاول بلاول بھی کہا جاتا ہے کشف حال اور دلوں کے اسرار سے واقف تھے، آپ کی خدمت میں جو بھی آتا اس کی دلی کیفیت آپ پر عیاں ہوتی ابتدائی زندگی سامانہ میں گزار دی، پھر دہلی میں چلے آئے طالب علموں کے پاس رہا کرتے جذبۂ حقیقی کا زور ہوا تو اکبرآباد چلے گئے ایک عرصہ تک مجرد رہے، ایک عرصہ کے بعد آپ سے کرامات کا ظہور ہونے لگا تو مخلوق خدا آپ کے ارد گرد منڈلانے لگی، آپ بھی ضرورت مندوں کی طرف توجہ فرمایا کرتے تھے بے اولاد لوگ آپ کی دعا سے صاحب اولاد ہوجاتے تھے۔
اخبار الاخیار کے مؤلف نے لکھا ہے کہ میرے چچا زرق اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بار میرا ایک بیٹا گم ہوا، مجھے بڑا صدمہ ہوا میں اس کے غم میں نڈھال ہوگیا، میں نے سوچا اس غم سے بچنے کے لیے یا تو صدقہ کروں یا قرآن کی تلاوت کرتا رہوں، اسمائے الٰہیہ کا ورد کرتا رہوں، اسی دوران مجھے شیخ علاء الدین مجذوب کے پاس جانے کا اتفاق ہوا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ جو وہ حکم کریں میں اس پر عمل کروں گا مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے قرآن پاک کی تلاوت سب سے اچھا عمل ہے۔ فاقراؤ ما تیسر من القرآن (جو قرآن سے آسان آیات ہوں انہیں پڑھتے رہو) میں نے ابھی چند آیات کی قرآن خوانی کی تھی کہ میرا بیٹا آگیا۔
اخبار الاخیار میں آپ کا سن وفات ۹۴۷ھ لکھا ہے اور علاء الدین مجذوب سے مادۂ تاریخ وفات لیا ہے آپ کا مزار پر انوار اکبرآباد میں ہے۔
شیخ مجذوب حق علاء الدین رحلتش ہست واقف سر مست ۹۴۷ھ
|
|
شد چو وا بہروے ز جنت باب نیز سر مَست سیّد اقطاب ۹۴۷ھ
|
(حدائق الاصفیاء)