شیخ علی مخدوم الجلابی الہجویری الغزنوی لاہوری قدس سرہ
شیخ علی مخدوم الجلابی الہجویری الغزنوی لاہوری قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
آپ کے والد کا نام عثمان بن ابی علی جلابی الغزنوی تھا شیخ ابوالفضل بن حسن ختلی الجنیدی سے بیعت تھے حضرت امام اعظم کونی کے مذہب پر تھے آپ علوم ظاہروباطن میں جامع تھے زہدوروع میں کمال کے رتبہ پر تھے ریاضت و کرامت خوارق و ولایت میں یکتائے روزگار تھے بلند مدارج اور ارجمند مقامات کے مالک تھے آپ کا سلسلہ عالیہ تین واسطوں سے حضرت شیخ شبلی سے ملتا ہے شیخ ابوالفضل بن حسن ان کے پیر حضرت شیخ خضر اور ان کے پیر حضرت شیخ ابوبکر شبلی تھے حضرت علی الہجویری نے اپنے پیرومرشد کے علاوہ بہت سے مشائخ کاملین سے صحبت حاصل کی جن میں حضرات شیخ ابوالقاسم گورگانی۔ ابوسعید ابوالخیر۔ ابوالقاسم قشیری کے اسماء گرامی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں آپ نے ان بزرگوں سے بڑا روحانی استفادہ کیا۔
نفحات الانس اورسکینۃالاولیاء میں لکھا ہے کہ آپ غزنی سے تعلق رکھتے تھے غزنی میں دو محلے جلّاب اور ہجویر تھے آپ کی نسبت انہیں مقامات کی وجہ سے جلابی اور ہجویری ہے آپ کے والد ماجد کا مرقد غزنی میں ہے آپ کی والدہ ماجدہ کی قبر بھی غزنی میں ہی ہے آپ کے ماموں حضرت شیخ تاج الاولیاء کا مزار بھی ساتھ ہی ہے۔
حضرت شیخ علی ہجویری بڑے صاحب تصنیف بزرگ تھے آپ کی مشہور کتاب کشف المحجوب ہے کوئی شخص ایسا نہیں جو آپ کی اس تصنیف کے کملات کا معترف نہ ہو بلکہ فارسی زبان میں کشف المحجوب سے پہلے علوم تصوف میں کوئی کتاب موجود نہ تھی۔
حضرت خواجہ نظام الدین مخدوم دہلوی کے ملفوظات فواہدالفواد میں لکھا ہے کہ حضرت مخدوم علی الہجویری کے لاہور آنے سے پہلے پشیترخواجہ حسین زنجانی جو آپ کے پیر بھائی اور حضرت شیخ ابوالفضل ختلی کے خلیفہ تھے لاہور کی قطبیت پر مامور تھے حضرت علی ہجویری کو خراسان میں حکم ہوا کہ لاہور چلے جائیں اور وہاں کام کریں حضرت علی ہجویری نے جواب دیا کہ میرے بھائی حسین زنجانی پہلے ہی لاہور میں کام کررہے ہیں مجھے وہاں مامور کرنے میں کیا حکمت ہے؟ شیخ ابوالفضل ختلی نے فرمایا کہ تم جاؤ! اور وہاں قیام کرو حکمت اور وجوہات دریافت کرنا ضروری نہیں حضرت مخدوم یہ حکم پاتے ہی شب و روز سفر کرتے لاہور پہنچے آپ جس رات لاہور پہنچے آپ نے شہر کے باہر ہی مقام فرمایاعلی الصباح شہر کے ایک دروازے میں داخل ہونے لگے تو لوگ حضرت شیخ حسین زنجانی کا جنازہ اٹھائے باہر آرہے تھے اسی رات حضرت شیخ زنجانی کا انتقال ہوا تھا آپ بھی جنازے میں شریک ہوئے اور اپنے مرشد کے اس خلیفہ کو اپنے ہاتھوں دفن کیا اور خود شہر کے مغربی جانب جہاں آج آپ کا مزار پُر انوار ہے قیام فرماہوئے[۱]۔
[۱۔یہ روایت صرف فواہد الفواد میں ہی ملتی ہے کسی اور کتاب میں نہیں پائی جاتی حالانکہ حضرت حسین زنجانی کی آمد اور قیام لاہور کا زمانہ حضرت مخدوم علی الہجویری کی وفات سے چالیس سال بعد کا ہے روایت سے مندرجہ بالا روایت سے اتفاق کرنے میں تامل ہے مورخین اور حقیقین نے اس روایت کی روشنی میں لکھا ہے کہ غالباً یہ کوئی بزرگ تھے جنہیں ملفوظات فواہدالفواد میں آپ کے نام سے ملتبسی کیا گیا ہے۔]
سکینۃالاولیاء میں لکھا ہوا ہے۔ کہ جب مخدوم علی ہجویری لاہور میں قیام فرما ہوئے آپ نے اپنی خانقاہ کے ساتھ ایک مسجد تعمیر کی جس کا رخ شہر کی دوسری مساجد سے ہٹ کر تھا وہ تھوڑا سا جنوب جانب تھا اس وقت کے علماء لاہور نے آپ کی مسجد کے محراب پر اعتراض کیا لیکن حضرت مخدوم خاموش رہے ایک دن آپ نے تمام علماء لاہور کو طلب کیا اور خود جماعت کی امامت کرائی سلام کے بعد فرمایا ذرا دیکھیں کعبۃ اللہ کس سمت واقع ہے اسی وقت تمام حجابات درمیان سے اٹھ گئے اور ہر ایک نے قبلہ کو اپنے سامنے پایا اور آپ کی مسجد کی سمت کو درست قراردیا۔
آپ کا مزار بھی مسجد کی نسبت سے شمالاً جنوباً ہے ایک عرصہ تک آپ کے مزار پر گنبد نہیں تھا ۱۲۷۸ھ میں (مصنف خزینۃالاصفیاء کے عہد میں) حاجی نور محمد فقیر نے ایک بلند اور عالی شان گنبد تعمیر کرایا۔ اور قدیم مسجد جو حوادت زمانہ سے بوسیدہ ہوچکی تھی ازسر نو تعمیر کرائی۔
حضرت علی الہجویری مخدوم لاہوری کا شجرہ نسب یوں درج کتب ہے حضرت مخدوم علی بن عثمان بن سید علی بن عبدالرحمان۔ بن شاہ شجاع۔ بن ابوالحسن علی بن حسین اصغر بن سید زید شہید۔ بن حضرت امام حسن بن علی کرم اللہ وجہہ۔ یاد رہے کہ حضرت داتا گنج بخش کا مزار پر انوار زمانہ قدیم سے خلایٔق کی عقیدت گاہ اور مَرجَع فیض رہا ہے پرانے زمانے اور موجودہ زمانے کے لوگ آپ کے مزار پر حاضر ہوکر حاجات روائی کراتے مقتداء اولیاء اللہ نے دینی اور دنیاوی فواہد حاصل کرتے رہے ہیں خواجہ بزرگ معین الدین چشتی قطب الہند۔ فرید الدین گنج شکر قدس سرہم جیسے اولیاء کمباراور مشائخ نامدار آپ کے مزار پر انوار سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں یہ بزرگ ایک عرصہ تک اس مزار پر خلوت گزین رہے اب تک حضرت خواجہ بزرگ کا خلوت کدہ آپ کے مزار کے پہلو میں موجود ہے اور حضرت خواجہ فرید کا مقام چلہ کشی اب تک موجود ہے۔
ایک روایت میں ہے۔ کہ جب خواجہ بزرگ معین الدین اجمیری حصولِ مقاصد کے بعد قطبیت ہندوستان کی خلعت سے سرفراز ہوئے۔ تو آپ حضرت کے مزار گوہربار پر حاضر ہوئے رخصت کے وقت آپ کے مزار کی طرف منہ کرکے فرمایا۔
گنج بخش ہر دوعالم مظہر نور خدا |
|
کاملاں را پیر کامل ناقصاں را راہنما |
اسی دن سے آپ کا لقب گنج بخش ہجویری مشہور ہوا ہے۔
جامع الکمالات حضرت مخدوم علی ہجویری کی وفات کا سال سفینۃ الاولیاء کے مصنّف نے ۴۶۶ھ لکھا ہے اخبار الاصفیاء اور نفحات الانس کے مولفّین نے ۴۶۵ھ تحریر کیا ہے حضرت داتا گنج بخش کا مزار پر انوار شہر لاہور کے مغرب کی طرف واقعہ جمعرات کو بے پناہ مخلوق مزار کی زیارت کو حاضر ہوتی ہے یہ بات مشہور ہے کہ جو شخص چالیس جمعرات یا متواتر چالیس دن آپ کے روضہ کی حاضری دے اس کی دلی تمنا یا حاجت پوری ہوجاتی ہے۔
علی الغزنوی آں شاہ ہجویر |
|
سراپا نور روشن ماۂِ ہجویر |
|
علی سیّد ولی ہجویر(۴۶۴ھ) پارسا کامل علی (۴۶۴ھ) حق بیں واقفِ حق(۴۶۴ھ) حبیب اولیاء گنجینیۂ نور(۴۶۴ھ) حق نما ہادی معصوم(۴۶۵ھ)
کاشف دین(۴۶۵ھ) ولی مولا علی (۴۶۵ھ) عالی قطب لاہور(۴۶۴ھ) ہجویری علی ہادی نامی(۴۶۵ھ) شمسِ دیں(۴۶۴ھ) گلشن دیں(۴۶۴ھ) گوہر ہجویری (۴۶۵ھ) پیر لاہوری(۴۶۴ھ) علی مہر علی(۴۶۵ھ) اور گنجینۂ اسرار محبوبی (۴۶۴ھ)
سے بھی تواریخ وفات برآمدہوتی ہیں۔
(خزینۃ الاصفیاء)