مولانا حافظ محمد برخوردار کے فرزند ارجمند تھے اور حضرت شاہ حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کے پوتے تھے۔ حضرت شیخ عبدالرحمٰن المشہور پاک سرہٗ سے تربیت و تکمیل پائی تھی۔ صاحب فضل و کمال تھے۔ حالتِ استغراق کا غلبہ رہتا تھا۔ گیارہ سال تک طعام نہیں کھایا۔ صائم الدہر اور قائم الیل تھے۔ صاحبِ تذکرہ نوشاہی بختاور ن ۔۔۔۔
مولانا حافظ محمد برخوردار کے فرزند ارجمند تھے اور حضرت شاہ حاجی محمد نوشاہ گنج بخش کے پوتے تھے۔ حضرت شیخ عبدالرحمٰن المشہور پاک سرہٗ سے تربیت و تکمیل پائی تھی۔ صاحب فضل و کمال تھے۔ حالتِ استغراق کا غلبہ رہتا تھا۔ گیارہ سال تک طعام نہیں کھایا۔ صائم الدہر اور قائم الیل تھے۔ صاحبِ تذکرہ نوشاہی بختاور نامی ایک شخص کی زبانی جو موضع ٹھٹھہ عثمان کا مقدم تھا، بیان کرتے ہیں کہ شیخ عنایت اللہ زیادہ تر اپنی زرعی اراضی پر رہا کرتے تھے اور وہاں اپنے رہنے کے لیے ایک حجرہ بنالیا تھا۔ ایک رات میں آپ کی زیارت کے لیے گیا۔ جب حجرے میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہُوں کہ آپ کا ایک عضو تن بدن سے جدا پڑا ہوا ہے۔ میں بڑا حیران ہوا اور دل میں کہنے لگا نہ جانے کون ظالم بے رحم قزاق غارت گر آپ کو شہید کر گیا ہے۔ میں ابھی اسی عالمِ حیرت میں تھا کہ آپ کے بھائی شیخ عصمت اللہ تشریف لے آئے۔ فرمایا بختاور یہ مقامِ حیرت نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے اسے کسی پر ظاہر نہ کرنا۔ شیخ عنایت اللہ نے ۱۱۵۸ھ میں وفات پائی۔
ز دنیا رفت چوں درخلدِ اعلیٰ وصالِ اوعیاں شد ’’مظہرِ جود‘‘ ۱۱۵۸ھ
|
|
شہ جن و بشر میر عنایت دگر ’’عالی قدر میر عنایت‘‘[1] ۱۱۵۸ھ
|
|
|
[1]۔ حضرت عنایت اللہ کا صحیح سنِ وفات ۱۱۴۰ھ ہے۔ (اذکارِ نوشاہیہ ص ۴۸)۔