عارف ربانی زاہد سبحانی شیخ عارف ہیں جو شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کے خلیفہ تھے۔ سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ شیوخ العالم قدس اللہ سرہ العزیز نے شیخ عارف کو سیوستان اور اس کے حدود و اطراف میں بھیجا تھا اور بیعت کی اجازت دی تھی اور قصہ یوں ہوا کہ اوچہ اور ملتان کی طرف ایک بادشاہ تھا اور یہ عارف وہاں کی امامت کا معزز منصب رکھتے تھے یا اور کوئی باہمی تعلق رکھتے تھے الغرض ایک دفعہ بادشاہ نے سو اشرفیاں شیخ عارف کے ہاتھ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں بھیجیں۔ شیخ عارف ان میں سے پچاس اشرفیاں تو اپنے پاس رکھ لیں اور پچاس شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں پیش کیں شیخ شیوخ العالم نے مسکرا کر فرمایا۔ عارف! تم نے خوب برادرانہ تقسیم کی۔ عارف نہایت شرمندہ ہوئے اور فوراً پچاس اشرفیاں نکال کر پیش کر دیں بلکہ اپنے پاس سے بھی کچھ اضافہ کیا اور نہایت عجز و انکسار کے ساتھ بیعت کی التماس کی شیخ شیوخ العالم نے ان سے بیعت لی اور وہ محلوق ہوگئے۔ اور شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں اس درجہ محویت و استغراق کے شاغل و راسخ ہوئے کہ اعلیٰ درجہ کی استقامت حاصل کی یہاں تک کہ آخر کار شیخ شیوخ العالم نے انہیں بیعت کی اجازت دی اور پھر سیوستان کی طرف روانہ کیا لیکن اور لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مولانا عارف اپنا خلافت نامہ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ حضور! یہ منصب نہایت نازک اور خطر ناک ہے میں بے چارہ اس قابل نہیں ہوں اور میرا اندازہ اس قدر نہیں ہے میں مشائخ کبار کے اس شغل و کار کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا۔ مخدوم کی شفقت و مہربانی سے مجھے یہی کافی و بس ہے کہ اپنی نظر مبارک میں لائے ہیں چنانچہ خلافت نامہ واپس کر کے شیخ شیوخ العالم کی اجازت سے مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور پھر وہاں سے واپس نہیں آئے رحمۃ اللہ علیہ کاتب حروف محمد مبارک علوی المدعو با میر خورد عرض کرتا ہے کہ اس بندہ نے والد بزرگوار سے سنا ہے کہ ایک درویش نہایت بزرگ اور صاحب نعمت تھے جنہیں شیخ علیصا بر کہا جاتا تھا اور جو درویش میں نہایت ثابت قدم اور مستجاب الدعوات تھے قصبہ دیگری میں رہا کرتے تھے اور شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں بیعت کر چکے تھے۔ جناب شیخ شیوخ العالم نے ان کی لیاقت و قابلیت ملاحظہ فرما کر بیعت لینے کی بھی اجازت دے دی تھی۔ شیخ شیوخ العالم کا دستور تھا کہ بعض بزرگ یار جو آپ کی دولتِ خلافت سے مشرف ہوتے تھے ہر ایک کو رخصت کرتے وقت ایک وصیت سے مخصوص فرماتے تھے اور اس کے لیے دعا کرتے تھے۔ اسی اثناء میں شیخ علی صابر نے عرض کیا کہ بندہ کے حق میں کیا حکم ہے۔ شیخ شیوخ العالم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ’’صابر برو بہوگہا خواہی کرد‘‘ یعنی تم سدا خوش عیش رہو گے اور فلاں و تنگی تم سے دور رہے گی۔ الغرض شیخ علی صابر نے آخر عمر تک عیش و خوشی میں زندگی بسر کی۔ شیخ علی صابر خوشرو اور کشادہ ابرو تھے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔