آپ شیخ احمد عبدالحق قدس سرہ کے فرزند ارجمند اور خلیفہ اعظم تھے والد کی وفات کے بعد مسند ارشاد پر بیٹھے اور ہزاروں طالبان حق کی راہنمائی فرمائی۔
معارج الولایت کے مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت شیخ احمد عبدالحق کے جو بھی اولاد ہوتی زندہ نہ رہتی تھی آخر کار آپ کی بیوی نے آپ سے ہی شکایت کی آپ نے فرمایا جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے حق حق حق کر کے فوت ہوجاتا ہے میرے حلب میں صرف ایک ایسا بیٹا ہے جو زندہ رہے گا مگر ابھی تک اس کی پیدائش کا وقت نہیں آیا میں ایک سفر پر جا رہا ہوں واپسی پر آکر تمہیں بتاؤں گا کچھ عرصہ کے بعد حضرت سفر سے واپس آئے اور گھر قیام کیا ایک سال گزرا تھا کہ اللہ نے بیٹا دیا جس کا نام عارف رکھا گیا آپ نے اپنی بیوی کو فرمایا اسے کچھ نہ کہنا اور اللہ کی رضا پر قناعت کرنا یہ لڑکا بڑا ہو کر ظاہری اور باطنی علوم کا یگانہ روزگار ہوا اور فیض جاری ہوا حضرت شیخ عارف کے ایک فرزند شیخ محمد نے سلسلہ چشتیہ کو فروغ بخشا یہی شیخ محمد ہیں جن کے خلیفہ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی ہوئے ہیں۔
شجرہ چشتیہ نے آپ کی وفات ۸۵۹ھ لکھی ہے اور آپ چالیس سال کی عمر میں فوت ہوئے۔
چو زیں دنیائے دوں رخت سفر بست
جناب شیخ عارف واقف حق
عجب تاریخ وصلش جلوہ گر شد
ز قطب احق معلیٰ عارف حق
۸۵۸ھ