شیخ بدر الدین غزنوی کے حالات
شیخ بدر الدین غزنوی کے حالات (تذکرہ / سوانح)
بدر السالکین شمس العارفین محبت کے جنگل کے شیر مودت کے سر چشمے شیخ بدر الدین غزنوی ہیں۔ جو پسندیدہ احوال اور منتخب و برگزیدہ افعال رکھتے اور اپنے زمانے میں اہل سماع و عشق کے درمیان محتشم اور شیخ الاسلام جناب قطب الدین بختیار اوشی کے ممتاز و معزز خلیفہ تھے۔ مشائخ روزگار آپ کی بزرگی کے معترف و معتقد تھے آپ نہایت موثر لفظوں میں وعظ کہتے جس کا اثر سننے والوں پر بہت کچھ پڑتا۔ خلق خدا کو اپنی دل پذیر اور با اثر تقریر سے رشک میں ڈالتے اور دلوں کو راحت و آسائش پہنچاتے آپ بیشتر ادائے محبت میں تھے آپ کا نہایت قیمتی دیوان ہے جو عاشقانِ خدا کے لیے دستور العمل ہے۔
شیخ بدر الدین غزنوی کے غزنی سے لاہور اور پھر لاہور سے دہلی میں آنے اور شیخ لاسلام جناب قطب الدین بختیار قدس اللہ سرہما
العزیز کی خدمت میں بیعت کرنے کا بیان
حضرت سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز فرماتے تھے کہ شیخ بدر الدین غزنوی کا بیان ہے کہ میں اول غزنین سے لاہور آیا اس زمانہ میں لاہور نہایت معمور و آباد تھا۔ چند روز میں یہاں رہا۔ بعد ازاں سفر کا قصد کیا اس وقت کبھی تو میرے دل میں آتا تھا کہ غزنین کی طرف چلا جاؤں اور کبھی کہتا تھا کہ شہر دہلی جاؤں لیکن میرے دل کی کشش غزنین کی طرف بہت تھی کیونکہ والدین اور عزیز و اقارب یار دوست وہیں تھے۔ دہلی میں صرف میرا ایک داماد تھا اس کے سوا کوئی اور نہ تھا۔ غرضکہ اس تردد میں میں نے قرآن مجید کی فال دیکھی اول میں نے غزنین جانے کی نیت سے دیکھا تو عذاب کی آیت نظر پڑی بعدہ جب دہلی کی نیت سے دیکھا تو آیت رحمت نکلی اور جنت اور اس کی ندیوں کا ذکر نظر پڑا چنانچہ میں قرآن مجید کی فال کے بموجب دہلی کی طرف روانہ ہوا اور یہاں آکر اپنے داماد کی تلاش و جستجو میں ہوا جو دہلی میں نوکر تھا۔ میں سرائے سلطان میں گیا دیکھتا ہوں کہ میرا داماد اشرفیوں سے بھری ہوئی ایک تھیلی ہاتھ میں لیے باہر آ رہا ہے مجھے دیکھتے ہی گلے سے لگ گیا اور نہایت خوش ہوکر وہ اشرفیاں میری نذر کیں میں چند روز تک دہلی میں رہا اس کے بعد غزنین سے خبر آئی کہ ان شہروں میں مغل پہنچ گئے اور میرے والدین اور تمام اقربا کو شہید کر ڈالا۔ جب سلطان المشائخ اس حکایت کو نقل کر چکے تو حاضرین نے دریافت کیا کہ جب شیخ بدر الدین دہلی میں پہنچے تو شیخ الاسلام قطب الدین بختیار سییعت کی اور مخلوق ہوئے تو دہلی ہی میں رہے اور جب تک شیخ الاسلام قطب الدین زندہ رہے شیخ بدر الدین اپنے پیر کی خدمت سے جدا نہیں ہوئے۔ اور آپ کی ملازمت ترک نہیں کی۔
شیخ بدر الدین غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی بعض کرامتوں کا بیان
سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ بدر الدین کو خواجہ خضر سے ملاقات تھی اور آپ اکثر اوقات ان سے ملا کرتے تھے ایک دن شیخ بدر الدین کے والد بزرگوار نے فرمایا کہ اگر مجھے خواجہ خضر کو دکھاؤ تو بہتر ہو۔ چنانچہ ایک دفعہ شیخ بدر الدین مسجد میں وعظ کہہ رہے تھے اور مہتر خضر ایسی بلند جگہ تشریف رکھتے تھے کہ اس جگہ کوئی دوسرا شخص بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ شیخ بدر الدین نے والد بزرگوار کو دکھایا کہ دیکھو وہ خضر بیٹھے ہیں ان کے والد نے حضرت خضر علیہ السلام کو دیکھ کر دل میں خیال کیا کہ اس وقت انہیں میری ملاقات سے تکلیف ہوگی اس لیے میں اس وقت تکلیف دینا نہیں چاہتا وعظ کے بعد دیکھوں گا۔ لیکن جب وعظ ختم ہوا تو خواجہ خضر وہاں سے غائب ہوگئے۔ جناب سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ بدر الدین نہایت بزرگ اور ذی مرتبہ شخص تھے لیکن جب آپ شہر میں آئے اور خلق میں مشغول ہوئے تو پھر ان کی یہ کیفیت نہیں رہی۔ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص کسی بزرگ کو دیکھے اور پھر وہ اس کی نظر سے غائب ہوجائے تو یقین کرلے کہ وہ مہتر خضر تھے۔ سلطان المشائخ یہ بھی فرماتے تھے کہ شیخ بدر الدین غزنوی کو میں نے فرماتے سنا کہ میں قاضی حمید الدین ناگوری کے مکان میں آیا دیکھا کہ آپ نے کپڑے دھونے کے لیے دے رکھے ہیں اور جاڑے کی ہوا نہایت خنک و سرد چل رہی ہے۔ آپ صرف ایک تہ بند باندھے ہوئے بیٹھے تھے فرمایا کہ بدر الدین! تمہارے والد کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔ اس حکایت کو نقل کرنے کے بعد سلطان نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص مصیبت و سختی کی حالت میں ایک دفعہ خلق و مہر بانی سے پیش آئے اور ذرا سا احسان کرے تو یہ احسان اسے تما عمر کے لیے کافی ہے۔ کاتب حروف نے اپنے عم بزرگوار سید السادات جناب سید حسین سے سنا ہے کہ ایک نہایت حقیر و ذلیل شخص سلطان المشائخ کی خدمت میں آیا کرتا آپ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجایا کرتے اور انتہا درجہ کی دلداری فرمایا کرتے بخلاف اور معزز و ممتاز عزیزوں کے کہ آپ ان کی اس درجہ تعظیم نہیں کرتے تھے اور یہ شخص اس تعظیم و توقیر کے شایان نہ تھا۔ ایک دفعہ یاروں نے اس کا سبب دریافت کیا فرمایا اس شخص نے نہایت مجبوری اور اضطراری کی حالت میں ایک مرتبہ ایک گز کپڑے سے میری مدد کی ہے میں اس وقت نہایت مجبور اور کپڑے کا سخت محتاج تھا ایسے وقت میں یہ شخص گز بھر کپڑا میرے پاس لایا اس وجہ سے میں اس کے حق کی رعایت کرتا ہوں۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ ایک نماز اہل سلوک کے ہاں مروج ہے جو آخر رجب میں درازی عمر کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ شیخ بدر الدین غزنوی ہمیشہ یہ نماز پر پڑھا کرتے تھے۔ ازاں بعد فرمایا میں نے شیخ ضیاء الدین پانی پتی علیہ الرحمۃ کے فرزند رشید نظام الدین سے سنا ہے کہ جس سال میں شیخ بدر الدین غزنوی انتقال کرنے والے تھے اس میں آپ نے یہ نماز نہیں پڑھی لوگوں نے عرض کیا کہ اس سال آپ نے وہ نماز کیوں نہیں ادا کی فرمایا۔ اب میری زندگی میں کچھ باقی نہیں رہا ہے چنانچہ اس سال میں آپ نے انتقال فرمایا شیخ بدر الدین غزنوی اپنے پیر شیخ الاسلام قطب الدین بختیار قدس اللہ سرہ العزیز کی پائینتی مدفون ہیں۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ بدر الدین غزنوی سے سنا آپ فرماتے تھے کہ شیخ قطب الدین بختیار قدس اللہ سرہ العزیز ذیل کی دو بیتیں اکثر اوقات پڑھا کرتے تھے۔
سو دائے تو اندر دل دیوانۂ ماست
ھر چہ نہ حدیث تست افسانۂ ماست
بیگانہ کہ از تو گفت او خویش من است
ویش کہ نہ از تو گفت بیگانۂ ماست
(تیرا خیال ہمارے دیوانے دل میں موجود ہے اور جو تیری بات نہیں ہے وہ ہمارا افسانہ ہے جو تیری بات بیان کرے اگرچہ وہ بیگانہ ہو لیکن میرا عزیز ہے۔ اور جو تیری بات نہ کرے اگرچہ وہ میرا عزیز ہے لیکن حقیقت میں بیگانہ ہے۔)