آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی ابوالخیر اسعد بلخی رحمۃ اللہ علیہ تھا، آپ شیخ غیاث الدین بلبن کے زمانہ کے بہت بڑے عالم تھے، علم و فہم میں کل اور وجد و سماع کے رسیا تھے، علوم شریعت و طریقت کے جامع اور شعر و شاعری سے بڑا لگاؤ رکھتے تھے،فقیری اور درویشی سے متعلق آپ کے اشعار میں سے ایک یہ شعر ہے۔
گر کرمت عام شد رفت زئرہان عذاب
در بعمل حکم شددہ کہ چہاد یدنیست
ترجمہ: (اگر آپ کا کرم عام ہوگیا تو بُرہان کو عذاب سے نجات مل گئی، اگر کوئی اور حکم دینا ہے تو دیجیے دیکھنا کیا ہے)۔ شیخ بُرہان الدین محمود وہ بزرگ عالم تھے جنہوں نے ’’مشارق حدیث‘‘ اس کے مولف ہی سے پڑھی تھی۔
صاحب ہدایہ کی بشارت:
شیخ برہان الدین محمود فرمایا کرتے تھے کہ جب میری عمر تقریباً چھ، سات برس کی تھی تو ایک مرتبہ میں اپنے والد محترم کے ساتھ کہیں جا رہا تھا، اتفاقاً راستہ میں ’’صاحب ہدایہ‘‘ علامہ برہان الدین مرغینانی کی آمد کی آواز سنائی دی تو والد صاحب مجھے چھوڑ کر قریب کی ایک گلی میں چلے گئے، ابھی میں وہیں کھڑا تھا کہ علامہ برہان الدین مرغینانی کی سواری آگئی، میں نے آگے بڑھ کر آپ کو بڑے ادب سے سلام کیا، آپ نے مجھے ذرا غور سے دیکھنے کے بعد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات کے کہنے کا حکم دیا ہے کہ یہ لڑکا آئندہ اپنے زمانے کا بڑا عالم و فاضل ہوگا۔‘‘ یہ سُن کر میں تھوڑی دور تک آپ کے ساتھ چلتا رہا، پھر آپ نے فرمایا کہ خدا مجھ سے کہلوا رہا ہے کہ یہ بچہ آئندہ اتنا بڑا ہوگا کہ شاہان وقت اس کے دروازے پر (فیض حاصل کرنے کے لیے) آیا کریں گے۔
حکایت: شیخ برہان الدین محمود اکثر و بیشتر یہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ عزوجل میرے کسی کبیرہ گناہ کی دریافت و تفتیش نہیں کرے گا، البتہ مجھ سے ایک گناہ کبیرہ ہوا جس کے بارے میں ضرور سوال فرمائے گا۔ لوگوں نے پوچھا، آپ کا وہ کبیرا گناہ کون سا ہے؟ جواب میں فرمایا، میرا کبیرہ گناہ ہے ستار سننا، اور حقیقت یہ ہے کہ میں نے ستار بہت سنا ہے، اگر اب بھی قابو پاؤں تو ضرور سنوں، آپ کا مزار حوض شمسی کی مشرقی سمت ہے جسے لوگ ’’تختۂ نور‘‘ کہتے ہیں اور زیارت کرنے آیا کرتے ہیں، نیز یہاں کے باشندے اپنے بچوں کو آپ کے مزار کے مٹی چٹاتے ہیں تاکہ حصولِ علم میں مزید خیر و برکت ہو، اسی وجہ سے آپ کی قبر نیچے کی طرف ٹوٹ جاتی ہے، جسے پھر از سر نو تعمیر کیا جاتا ہے۔
اخبار الاخیار