ابتدائی زندگی میں نمک فروشی کرتے تھے مگر خواجہ یوسف کانجو کشمیری قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کی نگاۂ فیضان نے آپ کو شیخ بابا علی بجواری (جو بابا ہروی ریشی قدس سرہ کے خلفاء میں سے تھے) کی خدمت میں پہنچایا۔ مرید ہوئے تکمیل کامل پائی۔ اگرچہ اُمّی محض تھے۔ مگر حضرت مرشد کی کامل توجہ سے ظاہری اور باطنی علوم کے دروازے کھل گئے۔ قرآن و احادیث کو شریعت و طریقت کے معانی سے بیان فرماتے تھے۔ آپ نے بڑی کرامات اور خوارق ظاہر ہوئیں۔ پھر تو حلال کی روزی حاصل کرنے کے لیے کاشتکاری کرتے۔
صاحب تاریخ دومری نے آپ کی وفات ۱۰۷۰ھ لکھی ہے مزار پر انوار خطۂ کشمیر میں ہے۔ تواریخ اعظمی میں درج ہے کہ آپ کی وفات کے بعد ملا محسن خوش نویس نے جو آپ کے عقیدت مند مرید تھے۔ آپ کا مادۂ تاریخ لکھنے کی فکر ہوئی تو صحیح تاریخ کے لیے مناسب شعر زبان پر نہیں آتا تھا۔ رات کو حضرت شیخ خواب میں تشریف لائے اور فرمایا ملا محسن فکر نہ کرو۔ میری تاریخ وفات ع غ ہے۔ یعنی ع سے عبد اور غ سے غلام
ز دنیا بَست چوں رخت اقامت وصالش متقی درویش گفتم ۱۰۷۰ھ
|
|
شہ داود شیخ پاک مسعود دوبارہ دوستدارِ فخر داود ۱۰۷۰ھ
|
(خذینۃ الاصفیاء)