آپ شیخ غلام حسن بن شیخ بُڈھاصاحب سلیمانی بھلوالی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزنداصغر اورسجادہ نشین تھے۔بیعت و خلافت اپنے بڑے بھائی شیخ غلام حسین صاحب موتیانوالہ سےپائی۔
تاریخ ولادت
آپ کی ولادت ۱۲۹۶ھ میں ہوئی۔
جذب وجلالیت
آپ کی طبیعت میں جذب وجلالیت بہت تھا۔کسی کو سامنے کُھلم کُھلا گفتگو کرنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔اورادِ قادریہ سے واقف تھے۔آپ کو اپنے والد صاحب کی دُعاتھی۔ جوکچھ زبان سے نکالتےخداوند عزاسمہٗ پُوراکردیتا۔کئی بے اولادوں کو آپ کی دعاسے اولاد ہوئی۔
آپ بڑے درازقد ۔بھاراجسم۔لحیم۔شحیم تھے۔چہرہ بارعب تھا۔اَن پڑھ تھے۔موٹی زبان میں گفتگو کیاکرتے۔
منصب سجادگی
جب آپ کے والدشیخ غلام حسن صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ہوئی ۔تو اُن کے بعد خلافت و سجادگی کے متعلق دونوں بھائیوں کاآپس میں تنازعہ ہوگیا۔شیخ فضل حسین صاحب
بڑاہونے کی حیثیت سے سجادگی کاحق زیادہ رکھتےتھے۔مگرآپ نے مقدّمہ کرکے مجسٹریٹ کی عدالت میں تحریری شہادتوں سے ثابت کردیاکہ میں شیخ غلام حسن صاحب کا حقیقی سجادہ نشین ہوں۔اس پرکافی شواہد پیش کئےچنانچہ عدالت کی طرف سے فیصلہ آپ کے حق میں صادر ہوا۔لہذا آپ درگاہِ حضرت سخی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے سجادہ نشین ہوئے۔
بعدمیں آپس میں برادرانہ طورپر راضی نامہ ہوا۔تواُن کو بھی حِصّہ دارٹھہرایاگیااور درگاہ شریف کا
چڑھاوا تین حِصّوں میں تقسیم کردیا۔ایک حِصّہ شیخ غلام حسین صاحب موتیانوالہ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد کا۔دوسراحِصّہ شیخ فضل حسین صاحب رحمتہ اللہ علیہ کاتِیسراحصّہ شیخ فیض احمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا۔
اب تینوں حِصّہ داروں کے ورثانے سال سال کی باری رکھی ہیں۔ہرایک حِصّہ دارایک سال تک دربارشریف کاچڑھاوالیتےہیں۔
مؤلف کتاب ہذاپرشفقت
میں ایک مرتبہ بھلوال شریف حاضرہوا۔عرس کا موقعہ تھا۔ آپ مجھ کو اپنےہمراہ خوشاب شریف لے گئے۔وہاں دورات رہے۔صبح کو آپ نے مجھ کو فرمایاکہ آج رات سخی شاہ معروف صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے مجھ کو حکم فرمایاہےکہ میں تجھ کو کلمہ طیّبہ کا وظیفہ اجازت دوں۔چنانچہ میں نے بصد شوق وہ اجازت حاصل کی ۔اس کے بعد آپ تمام اولادِ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ میں سے میرے ساتھ زیادہ محبّت رکھتے تھے۔جب کبھی آپ موضع سارنگ تشریف لاتے تو مجھے فوراً پاس بلالیاکرتے۔
وظیفہ بتانا
سائیں بہاول درویش ساکن ٹوپ عثمان بیان کرتاہےکہ آپ ایک مرتبہ مجھ کو خواب میں ملے اور فرمایاہرروزتین ہزار مرتبہ درود شریف پڑھاکرو۔
افادہ عام
صاحبزادگانِ سچیاریہ نوشہرویہ اور صاحبزادگان ِ رحمانیہ بھڑی والہ بھی آپ سے مستفیض ہواکرتے تھے۔
اولاد
آپ کے تین بیٹے تھے۔
۱۔شیخ امیرحسین یہ بچپن میں فوت ہوگیا۔
۲۔ شیخ سید احمد مجذوب لاولد۔
۳۔شیخ احمد الدین صاحب ۔یہ آجکل اپنے والد صاحب کے جانشین ہیں اور ۱۳۷۵ھ میں موجودہیں۔
یارانِ طریقت
آپ کے خواص احباب یہ ہیں۔
۱۔شیخ احمد الدین صاحب فرزند سوم بھلوال شریف ضلع سرگودھا
۲۔میاں سید احمد بن میاں ابراہیم صاحب رحمانی بھڑی شریف گوجرانوالہ
۳۔میاں بشیراحمد بن میاں شیرعالم اولاد میاں سُرخرو مرحوم کوٹ قادربخش گوجرانوالہ
۴۔مولانا حافظ ابوالظریف محمد حنیف قاری بن حافظ محمد رفیق خطیب جامع کوٹ مومن سرگودھا
۵۔میاں علی محمد بن مَہماں بافندہ بِھکھی گجرات
تاریخ وفات
شیخ فیض احمد کی وفات بعمر چھیاسٹھ سال ۱۳۵۲ھ میں ہوئی،قبر بھلوال شریف روضہ اطہرحضرت سخی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ کے آگےچبوترہ سے نیچے قدموں کے سامنے ہے۔
مادہ تاریخ ہے۔ "رفیع بخت"۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)