آپ لاہور کے صاحبِ حال اور صاحب وجد صوفیا میں سے تھے آپ سیّد حیدر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے اور وہ شیر شاہ لاہوری کے خلیفہ تھے آپ ریشم کے کپڑے بنا کر گزر اوقات کرتے تھے اور ہر سال میں آپ سترہ عرس سالانہ کیا کرتے تھےجن میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ، عاشورہ مبارک، عرس حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ ، عرس حضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ، عرس حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ اور عرس حضرت خواجہ علی احمد صابر رحمۃ اللہ علیہ ،منایا کرتے تھے۔ ان عرسوں پر بڑا پیسہ خرچ کرتے اور سماع کی مجالس قائم کرتے تھے آپ کے مریدوں میں آپ کی کرامات بڑی مشہور ہیں ہم اس مختصر سی کتاب میں وہ کرامات نہیں لکھ سکتے ہر رات تین بار غسل کرتے اور اللہ کی عبادت میں ساری رات گزار دیتے دنیا کی لذیذ سے چیزوں سے پرہیز کرتے بعض اوقات حلوے میں مرچیں ڈال دیتے اور زردے میں نمک ملا لیتے موت قریب آئی تو محرقہ بخار میں مبتلا ہوئے اور چند دن بیمار رہ کر رجب کی نو ۱۲۸۶ھ کو فوت ہوگئے آپ نے مرنے سے چند لمحے پہلے حافظ قادر بخش نعت خواں کو بلایا اور کہا کہ مجھے سرور عالم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی نعت سنائیں اُس نے یہ نعت شروع کی۔
منم خاکِ در کوئے محمدﷺ
اسیر حلقۂ موئے محمدﷺ
قتیل نوک شمشیر نگا بش
شہید تیغِ ابروئے محمدﷺ
یہ نعت سنتے ہی آپ پر وجد طاری ہوا۔ تڑپنے لگے جسم پسینہ سے شرابور ہوگیا اور اسی حالت میں جان قربان کردی۔
ز دار الفنا سوی فردوس رفت
چو آن فیض بخش صفا اہل فیض
بگو محرم فیضِ حق سال او
۱۲۸۶ھ
دگر مرد اہل عطا اہل فیض
۱۲۸۶ھ
الحمد للہ۔ خزینۃ الاصفیاء کے سلسلہ چشتیہ کے حصے کا ترجمہ مکمل ہوگیا ہے۔ دوسرے سلاسل تصوّف میں سے سلسلہ قادریہ اور متفرق سلاسل۔ مجازیب۔ اور صالحاتِ امت کے تراجم زیور طبع سے آراستہ ہوکر آچکے ہیں۔ سلسلہ نقشبندیہ اور سلسلہ سہروردیہ زیر ترجمہ ہیں جو انشاء اللہ جلد ہی قارئین کرام تک پہنچیں گے۔
پیر زادہ اقبال احمد فاروقی
(متراجم خزینۃ الاصفیاء)