آپ کشمیر میں شال کے تاجر تھے۔ اللہ کی تلاش دامن گیر ہوئی تو حضرت شیخ یعقوب علی کشمیری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مرید ہوگئے تارک الدنیا ہوگئے۔ عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے لگے۔ آپ پر ظاہری اور باطنی فتوحات کے دروازے کھل گئے خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ جذب و سُکر میں استغراق پایا۔ دنیا اور اہل دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ سماع اور وجد کو اپناتے۔ غلبۂ شوق میں عاشقانہ اشعار ترنم سے پڑھتے۔ یہ شعر انہی کی زبان سے نکلا۔
اے کہ بہشت بریں بے تو عذابم عذاب گرمی شوقت چہ کر و نرمی ذوقت چہ کرد بے تو نہ سر و د گل بے تو نہ جامم نہ مل حسبی بیچارہ بیں اَشک فشاں بر زمیں
|
|
آتش دوزغ ہمہ باتو گلا بم و گلاب سینہ کبابم کباب دیدۂ پُر آبم پُر آب بے تو کدام ست ماہ بے توکدام آفتاب کرد زراعت چیں دست و طعام و شراب
|
|
شعری دیوان کے علاوہ بھی آپ کی بہت سی کتابیں نثر و نظم میں مشہور ہوئیں۔ ان تصانیف میں اپنے مرشد ارشد کے مقامات اور احوال بیان کیے ہیں ۱۰۲۶ھ میں غلبہ طاعون میں وصال ہوا۔ آپ کا مرشد منور محلہ نوشہرہ میں زیارت گاہ عام و خاص بنا۔
چوں حبیب خدا حبیب اللہ رحلتش گو حبیب جامع فیض
|
|
شد بفردوس زیں سرائے خراب ہم نجواں آفتاب عالمتاب
|
(خذینۃ الاصفیاء)