شیخ حاجی اویس و توزی قدس سرہ
شیخ حاجی اویس و توزی قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
آپ حضرت پیر قبار کی اولاد سے تھے پٹھانوں میں وتوزی قبیلہ بہت با عظمت اور بہت با وقار ہے آپ اُسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے آپ کو پیر قبا کی روحانیت سے بڑا فیض ملا تھا جن دنوں آپ حج کرنے آئے تو حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی زیارت کرنے کے لیے کرن پہنچے اوروہاں سے وطن واپس آئے۔
معارج الولایت میں لکھا ہے شیخ حاجی کے گھر لڑکا پیدا ہوا تو اُس کا نام داؤد رکھا آپ کی بیوی نے مبارک دی فرمانے لگے یہ ایسا لڑکا نہیں ہے کہ اس کی پیدائش پر مبارک دی جائے تو واقع جب وہ لڑکا جوان ہوا تو پاگل ہوگیا شیخ کو اللہ نے ایک بیٹی دی جب وہ جوان ہوئی تو آپ نے ایک یوسف نامی نوجوان کو کہا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی تم سے کرنا چاہتا ہوں اگر تم قبول کرو تو مجھے بتاؤ نوجوان نے کہا کہ میں اپنی والدہ سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا تم میرے خلوص کو ٹھکرا رہے ہو تم نے میری لڑکی قبول نہیں کی جاؤ تمہارے ہاں کبھی اولاد نہیں ہوگی چنانچہ ایسے ہی ہوا کہ شیخ یوسف نے بے شمار عورتوں سے نکاح کیے لیکن کسی کے ہاں بھی اولاد نہ ہوئی شیخ حاجی اویس قصور میں پیدا ہوئے وہیں زندگی گزری اور وہاں ہی ان کا مزار ہے آپ کی وفات ۱۰۱۷ھ میں ہوئی ہم نے اوپر پیر قبار چشتی کا ذکر کیا ہے ہم اُن کے تھوڑے سے حالات معارج الولایت اخبار الاولیاء اور شجرا چشتیہ سے لکھنا چاہتے ہیں آپ کا نام نامی شیخ وٹو تھا اور لوگ انہیں پیر قبار بن شعور ابن خشگی کہتے تھے شکیرنی اور خش کی پٹھانوں کے قبیلے ہیں جو چشتی فقرا سے تعلق رکھتے ہیں شعور پٹھانوں کے تین بیٹھے تھے ایک کا نام پیر قباء تھا۔ دوسرے کا نام حسین خشکی۔ تیسرے کا نام خلف خشکی تھا۔ اِن تینوں میں سے پیر قباء بڑے بھی تھے اور بزرگ بھی تھے جب ان کے دِل میں اللہ کی طلب کی آگ بھڑکی تو وہ کسی پیر کامل کی تلاش میں نکلے وہ بڑے بڑے بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر دل کو تسلی نہ ہوئی آخر قصبہ سیں قطب الدین خواجہ چشتی کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت خواجہ نے آپ کو اپنے پاس بٹھایا اور اپنی خانقاہ میں رکھ لیا اور حکم دیا کہ لنگر کا کھانا پکانے کے لیے پانی لایا کرو پیر قبا چالیس سال تک لنگر کے لیے پانی لاتے رہے جس وقت خواجہ کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ نے پیر قباء کو اپنے پاس بلایا اور فقر خلافت خصوصی عنایت فرمایا اور اجازت دی کہ وہ اپنے وطن واپس چلے جائیں چونکہ پیر قباء کو خواجہ سے بڑی محبت تھی آپ وطن کو واپس نہ آئے حضرت خواجہ کی وفات کے بعد اُن کے مزار پر وہی خدمت سر انجام دیتے رہے ایک رات خواجہ نے خواب میں ارشاد فرمایا کہ اب تم اپنے وطن واپس چلے جاؤآپ وطن واپس آئے پشاور کے کوہستان کے پٹھان بڑے سنگ دل تھے انہوں نے آپ کی بزرگی کو تسلیم نہ کیا اور بزرگی کی سند طلب کی کہنے لگے کہ اگر اسی وقت دو کبوتر جنگلی اُڑتے اُڑتے آئیں اور تمہارے گربیان میں گھس جائیں اور بازو کے راستے باہر نکلیں پھر ہمیں تسلی ہوگی کہ تم ولی اللہ ہو چنانچہ غائب سے دو کتوبر آئے اور گریبان میں گھس گئے اور بازو ے راستے باہر نکل آئے یہ کرامت دیکھ کر پشاور کے قریب کےلوگ آپ کے مرید ہوگئے خصوصاً خشکی قبیلہ آپ کا عقیدت مند بن گیا پیر قباء نے ان کبوتروں کے حق میں دُعا کی اور مریدوں کو حکم دیا کہ آج کے بعد کوئی شخص نہ کتوبر کا شکار کرے اورنہ ذبح کرے۔
آپ نے اعلان کیا کہ جو شخص کبوتروں کو تکلیف دے گایا وہ مرجائے گا یا بے اولاد رہے گا یا تنگ دست ہوجائے گا آج تک خشکی پٹھانوں میں یہ رسوم چلی آرہی ہے کہ کوئی کبوتر کا شکار نہیں کرتا تلقین نو مریدین میں لکھا ہے۔
چوں ز د تو خوارق عادات
خوان ستہ قوم بر مکشوفات
دو کبوتر موافق گفتار
ز استین دو شیخ شد طیار
قوم راگفت شیخ بعد ازان
چونکہ شد برد لاتشیں برہان
جنس این طیرز اخر ندھید
گر مریدان خاص دال یند
این مکی خوارق از یز داں بود
خارقش دا کجا شمار بود
اگرچہ پیر قباء کی توجہ سے بے پناہ مخلوق کو ہدایت ملی مگر آپ کے مرید کامل شیخ بطق تھے۔ آپ بڑے صاحب کرامت ولایت اور ہدایت کے مالک تھے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ خشگی کے بیٹے آپ کے مرید اور پدر زادہ تھے بعض کہتے ہیں کہ شیخ بطق خواجہ چشتی کے پوتے تھے اُن کے والد کا نام عمر تھا۔ اور حضرت پیر قباء نے اُن کے حق میں دُعا کی تھی کہ قیامت تک اُن کی اولاد میں مصرف باقی رہے گی پیر قباء ۵۵۰ھ میں فوت ہوئے تھے۔