منقول ہے کہ شیخ حمید الدین ناگور کے خطہ میں ایک بیگھہ زمین رکھتے تھے جو آپ کی ملکیت خاص تھی اسی ایک بیگھہ زمین میں آپ اپنی زندگی بسر کرتے اور اسی سے اپنےے متعلقین کی قوت چلاتے تھے اول نصف بیگھہ زمین اپنے دستِ مبارک سے بیلچہ سے درست کرتے اور کچھ کاشت کرتے۔ جب یہ آدھا بیگھہ زمین پھلتی پھولتی اور بار آور ہوجاتی تو پھر دوسرا نصف بیگھہ درست کرتے اور اس میں کوئی چیز بوتے اس سے جو کچھ حاصل ہوتا اسے لابدی قوت اور ضروری ستر عورت میں صرف کرتے چنانچہ آپ ایک فوطہ چادر کمر مبارک سے باندھتے اور ایک چادر جسم مبارک پر ڈالتے اسی طریق سے اس دنیائے غدار میں عمرِ عزیز بسر کرتے۔ حکیم سنائی خوب کہتے ہیں۔
این دو روزہ حیات نزد خرد
چہ خوش و نا خوش و چہ نیک و چہ بد
(عقلمند کے نزدیک یہ دو روزہ زندگی خوشی و نا خوشی اور بری یا بھلی حالت میں گزارنا برابر ہے۔)
جب ناگور کے صوبہ کو خبر ہوئی تو وہ کچھ نقدی لے کر شیخ حمید الدین کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اگر شیخ قدرے دیگر زمین قبول فرمائیں تو میں بیج کی اور کار گزاروں کی تدبیر کردوں تاکہ آپ کو اس سے بہتر فراغت حاصل ہو۔ شیخ حمید الدین نے فرمایا کہ ہمارے خواجگان میں سے کسی نے اس بابت کچھ قبول نہیں کیا ہے اور جب انہوں نے ایسا نہیں کیا تو میں کب قبول کر سکتا ہوں۔ یہ ایک بیگھہ زمین جو میری ملکیت ہے مجھے کافی و وافی ہے۔ غرضکہ آپ نے صوبہ سے معذرت کی اور اس کے لائے ہوئے تحفوں کو نگاہ قبول سے نہیں دیکھا۔ صوبہ نے شیخ حمید الدین کی بزرگی اور آپ کے افلاس و تنگدستی کی بابت بادشاہ وقت کو اطلاع دی اور اس نے پانچ سو نقرئی سکوں کی تھیلیاں اور ایک گاؤں کا فرمان شیخ حمید الدین کے نام کا مرتب کر کے صوبہ کی معرفت بھیجا اور کہا کہ یہ شیخ کے پاس لے جا اور میری طرف سے نہایت عجز و انکساری اور بے حد ذلت کے ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کرنا کہ آپ اسے قبول کرلیں۔ صوبہ نے ایسا ہی کیا اور جب روپیوں کی تھیلیاں اور گاؤں کا فرمان شیخ حمید الدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں لے گیا تو شیخ نے اس وقت تو کچھ نہیں کہا مگر تھوڑی دیر کے بعد صوبہ کو وہیں بیٹھا چھوڑ کر اپنے حرم محترم کے پاس تشریف لے گئے اس وقت آپ کی بی بی کے سر پر اوڑھنی تک نہ تھی صرف پیراہن مبارک دامن سر پر ڈال لیا کرتی تھیں اور شیخ کی بھی چادر جو آپ کی کمر مبارک سے باندھتے تھے نہایت پرانی ہوگئی تھی اور جا بجا سے پھٹ گئی تھی۔ الغرض شیخ نے چاہا کہ اس شاہ زنان یعنی اپنی حرم محترم کو درویشی میں آزمائیں چنانچہ آپ نے ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ بادشاہِ وقت نے پانچ سو روپے کی تھیلیاں اور ایک گاؤن کا فرمان بھیجا ہے تم اس بارہ میں کیا کہتی ہو آیا میں اسے لے لوں یا واپس کردوں اس شیرزن اور بادشاہ زنان نے فرمایا کہ اے خواجہ کیا تو چاہتا ہے کہ اپنی برسوں کی فقیری کو ایک دم باطل و ضائع کردے۔ آپ بالکل اطمینان رکھیے میں نے دو سیر سوت ہاتھ سے کاتا ہے اس سے اس قدر کپڑا تیار ہوجائے گا کہ آپ کی چادر اور میری اوڑھنی تیار ہو جائے گی۔ جب شیخ حمید الدین نے اس فخر زنان کی یہ تقریر سنی تو نہایت خوش ہوئے اور باہر تشریف لا کر صوبہ سے فرمایا کہ اے خواجہ مجھے تمہارے اس لائے ہوئے تحفے کی چنداں حاجت نہیں ہے اور میں اس کے قبول کرنے کے لائق نہیں ہوں۔
(سیر الاولیاء)