شیخ حمزہ شاہ جوکالوی رحمتہ اللہ علیہ
شیخ حمزہ شاہ جوکالوی رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ عاشق ذاتِ خدامقبول حضرت کبریاتھے۔آپ حضرت شیخ محمد آفتاب بن شیخ تاج محمود قلندر سلیمانی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند اصغر اورمریدوخلیفہ تھے۔اپنے والد صاحب کے خلیفہ شیخ مرتضےٰ رحمتہ اللہ علیہ سے بھی فیض پایا۔کبھی مجذوب کبھی سالک ہوتے۔سیروسیاحت بھی کچھ عرصہ کی۔ موضع جوکالی میں سکونت رکھتے تھے۔
ذکرآبادی قصبہ جو کالیاں
مرزااعظم بیگ نے کتاب تاریخ ضلع گجرات ص۱۳۶میں لکھا ہے۱؎:
"یہ قصبہ شہرگجرات مقام ضلع سے جانب جنوب بفاصلہ چودہ کوس واقع ہے اور یہ جگہ جہاں اب قصبہ آبا د ہے کسی زمانہ گذشتہ سے بطورِ ٹبّہ کے ویران پڑی ہوئی تھی اور اس کانام جوکالیاں مشہور تھا۔ بمرورگیار ہ پشت مسمّی بھٹی جٹ گوت تارڑ نے بنظرآبادی اس پر قبضہ کر کے گاؤں بسالیا۔ اب تک اس کی اولاد مالک ہے۔پہلے تو یہ ایک گاؤں زمینداری تھا۔مگر عہد سکّھاں میں یہ گاؤں جائے تعلقہ ہوگیااور غلام چٹھہ نے کہ ہو حاکم اس تعلقہ کاتھا۔قلعہ بناکراپنی بودوباش رکھی۔اس کے سبب سے بباعث آبادی اہل حرفہ کے قصبہ بن گیا۔آبادی اس کی اب بھی خام ہےاوراس وقت گیارہ ہزاردوسو اٹھاٹھ مردم شماری اورچھ سو چھہتر گھر۔بیالیس دکان اس قصبہ میں واقع ہیں۔ ساہوکار بڑاکوئی نہیں ۔معمولی بیوپارکرنے والے ہیں۔پندرہ ہزار روپیہ سالانہ تک بیوپار اشیائے ذیل کااس قصبہ میں بطور تجارت ہوتاہے۔قند ۔شکر۔روغن زرد۔نمک۔گندم ۔سوت۔کپاہ۔دھڑتھ کچھ مقررنہیں اور نہ منڈی ہے۔صرف کھتری لوگ اس قصبہ کے کنک۔نخود اورقندو سُوت وغیرہ دیہات گردونواح سے خرید کرکے دریائے چناب سے کشتیوں کے راستہ ملتان کوبھیجاتے ہیں اور نمک کانِ نمک سے بقدرِ ضرورت لے آتے ہیں اور کسی طرح کا کسب عمدہ نہیں ہوتا۔نہ کوئی خاندان نامی ہے۔کماد خاص اس قصبہ کا بہت اچھابکثرت ہوتاہے۔جس کےسبب سے قنداس جگہ کا بہت شیریں ہوتاہے اور یہ قصبہ دریائےچناب پر واقع ہے۔اس کی حد سے جانب دکھن دریاجاری ہے۔ بُردو برآمد اس کے سبب سے اس گاؤں میں ہرسال ہوتی ہے اور کوئی نالہ واقع نہیں ہے۔کوئی خاص عمارت اس قصبہ کی لائق ذکرنہیں ہے۔مگرایک مسجد پختہ چونہ گچ میاں محمد اسحاق صاحب عالم نے بمرود چھ بر س اندر قصبہ کے بنائی ہے۔معمولی عمارت ہے۔اور ایک ہزار روپیہ تک اس پر صرف ہواہوگا۔بعض عمارات معمولی کا نقشہ ہئیت اس قصبہ پر درج ہے"۔ بلفظہِ
۱؎یہ کتاب ۱۲۹۷ھ بمطابق ۱۸۸۰ء کی تصنیف ہے۱۲ شرافت
مویشی پالنے کا شوق
منقول ہے کہ آپ کو مال مویشی کا بہت شوق تھا۔ایک سوچالیس بَھینسیں آپ کے پاس تھیں۔ا ن کادودھ اور مکّھن راہ ِخدا میں صرف کیاکرتے اورفرماتے بیٹاہمارا حق نہ چھیڑنا۔چنانچہ وہ آدھادودھ پیتے اور آدھاچھوڑ دیتے۔
اولاد
آپ کے چار بیٹے تھے۔
۱۔شیخ بودلے شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ۔
۲۔شیخ محبّت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ لاولد۔
۳۔شیخ ہچھے شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ۔
۴۔شیخ اربیلے شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ لا ولد۔
یارانِ طریقت
آپ کے خواص احباب یہ تھے۔
۱۔شیخ بودلے شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرزند اکبر جوکالیاں ضلع گجرات
۲۔شیخ محبّت شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرزنددوم جوکالیاں ضلع گجرات
۳۔شیخ ہچھے شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرزند سوم جوکالیاں ضلع گجرات
۴۔شیخ اربیلے شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرزند چہارم جوکالیاں ضلع گجرات
۵۔شیخ پھلے شاہ بن شیخ فتح الدین سلیمانی برادرزادہ رحمتہ اللہ علیہ رسول نگر ضلع گوجرانوالہ
۶۔شیخ جوائے شاہ بن شیخ فتح الدین براردرزادہ رحمتہ اللہ علیہ سید نگر ضلع گوجرانوالہ
۷۔شیخ خان بہادربن شیخ نورجمال برادرزادہ رحمتہ اللہ علیہ
مدفن
شیخ حمزہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار قصبہ جوکالیاں ضلع گجرات میں مشرقی جانب ہے۔قبرپر درخت وَن (پیلو) نے سایہ کیاہواہے۔قبر کے متعلق بارہ بیگہ زمین تھی۔جواولاد کے قبضہ میں رہی۔لیکن چندسال سے گورنمنٹ برطانیہ نے ضبط کرلی ہے۔
وفات ۱۱۹۶ھ۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)