شیخ حاتم بن عنوان اصم
شیخ حاتم بن عنوان اصم (تذکرہ / سوانح)
آپ کی کنیت ابوعبدالرحمان تھی بلخ کے رہنے والے تھے حنفی المذہب تھے اور حضرت شیخ شفیق بلخی کے مریدِ خاص تھے۔ شفیق بلخی کے بعد آپ نے حضرت شیخ احمد خضرویہ سے بیعت کی ۔ خراسان کے بزرگوں میں آپ کا مقام زہد و عبادت ادب و ورع میں بہت بلند تھا۔
ایک دن بلخ میں وعظ فرما رہے تھے۔ جوش میں آکر فرمایا: اے اللہ اس مجلس میں جو شخص سب سے زیادہ گناہگار ہے اسے بخش دے۔ اس مجلس وعظ میں ایک ایسا شخص موجود تھا جو مردوں کے کفن چورایا کرتا تھا۔ دوسری رات وہ ایک قبرستان میں اپنے معمول کے مطابق کفن چوری کرنے لگا، ایک قبر کھودی مگر صاحب قبر نے آواز دی کل تجھے حضرت حاتم اصم کی مجلس میں بخشش کی بشارت بھی ملی۔ مگر تم اپنی بُری حرکت سے باز نہیں آئے۔ اس شخص نے اُس بُرے کام سے توبہ کرلی۔
شیخ محمد رازی فرماتے ہیں کہ میں کئی سال حضرت اصم کی مجلس میں رہا صبح و شام ان کی خدمت میں گزارے میں نے ایک دن بھی آپ کو خشمگیں نہیں دیکھا۔ ایک دن آپ بازار سے گزر رہے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ آپ کے ایک شاگرد کو ایک سبزی فروش نے پکڑا ہوا ہے۔ اور اسے کہہ رہا ہے کہ تو مجھ سے ترکاری ادھار لے گیا تھا۔ اسے ہضم بھی کرلیا ہے مگر ابھی تک مجھے قرضہ ادا نہیں کیا آج میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا، حضرت دکان کے پاس رک گئے اور دکاندار بقال کو کہا کہ چند روز صبر کرو یہ قرضہ ادا کردے گا اس نے کہا میں تو اسے نہیں چھوڑوں گا اگر آپ کو اپنے شاگرد پر اتنا ترس آتا ہے تو اپنی جیب سے ادا کردیں یہ سنتے ہی آپ جلال میں آگئے اپنے کندھے سے چادر اتار کر غصے کے عالم میں زمین پر پھینک دی دیکھتے دیکھتے چادر کا دامن اشرفیوں سے بھر گیا بقال کو فرمایا اپنا قرضہ اٹھالو۔ اگر اپنے حق سے زیادہ اٹھاؤ گے تو سزا پاؤ گے بقال نے اپنا حق اٹھایا مگر لالچ کی وجہ سے مزید ہاتھ بڑھایا، اور مزید اشرفیاں اٹھانا چاہیں۔ اس کا ہاتھ وہاں ہی خشک ہوکر رہ گیا۔
ایک شخص نے حضرت اصم کو دعوت طعام دی۔ آپ نے فرمایا: میری تین شرطیں ہیں جہاں چاہوں گا بیٹھوں گا جو چاہوں گا کھاؤں گا جو چاہوں گا کہوں گا آپ دعوت پر پہنچے، تو آپ جوتوں کی جگہ بیٹھ گئے، صاحب خانہ نے عرض کی حضرت یہ بیٹھنے کی جگہ نہیں، آپ صدر نشین ہیں آپ نے فرمایا: میری شرط تو یہی تھا کھانا لگایا تھا تو آپ نے جَو کی روٹی نکالی اور کھانا شروع کردی صاحب دعوت نے گزارش کی، حضور میں نے آپ کے لیے یہ چیزیں تیار کروائی ہیں، آپ نے فرمایا: نہیں یہ میری شرط تھی، فرمایا: میری شرط تھی کہ جو چیز مجھے اچھی لگے گی کھاؤں گا پھر آپ نے حکم دیا لوہے کا ایک ٹکڑا جب خوب گرم ہوجائے تو مجلس میں لے آنا وہ سُرخ لوہا تیار کرکے لے آیا، آپ نے اس لوہے کو زمین پر رکھا اور اپنا پاؤں اوپر رکھتے ہوئے کہا یہ نان جوین کھانے کا حساب ہے۔ قیامت کے دن ہر دانے پر اللہ تعالیٰ حساب لے گا وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔ اب تم لوگ ایک ایک کرکے اس لوہے پر پاؤں رکھتے جاؤ تاکہ تمہیں اس کھانے کا حساب یہاں ہی ادا کرنے کا موقع مل جائے۔ سب نے کہا: ہمیں تو ہمت نہیں، آپ نے فرمایا: پھر تم قیامت کے دن کس طرح حساب سے فارغ ہوگے، آپ کی یہ بات سنتے ہی اہل دل دھاڑیں مارنے لگے اور مجلس طعام ماتم کدہ بن گئی۔
ایک عورت حاتم اصم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ایک مسئلہ دریافت کیا۔ مگر اسی دوران اُس کی ہوا سرک گئی، وہ بڑی شرمندہ ہوئی۔ آپ نے زور سے فرمایا کہ بلند آواز سے بات کرو میں اصم (اونچا سنتا ہوں) ہوں۔ آپ کی مراد یہ تھی کہ اس عورت کی شرم ساری جاتی رہے۔ اس عورت نے بلند آواز سے اپنا مسئلہ دریافت کیا۔ جب تک وہ عورت زندہ رہی آپ نے اپنے آپ کو اصم مشہور رکھا تاکہ اسے احساس ندامت نہ ہو۔
ایک دن آپ سفر میں تھے۔ آپ کے ایک ہمراہی نے گزارش کی۔ حضرت مجھے نصیحت فرمائیں آپ نے فرمایا: اگر تمہیں دوست کی ضرورت ہو۔ تو اللہ ہی کافی ہے۔ اگر ہمراہی کی ضرورت ہو تو کراماً کاتبین اچھے ساتھی ہیں۔ اگر مونس جان کی ضرورت ہو تو تلاوت قرآن سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ کام کرنا چاہو تو عبادت سے بڑح کر دنیا میں کوئی کام نہیں اگر وعظ چاہو تو موت ہی کافی ہے لیکن جو باتیں میں نے کہی ہیں۔ اگر تمہیں پسند نہیں تو تمہارے لیے دوزخ ہی کفایت کرسکتی ہے۔
حضرت حاتم اصم نے ۲۳۷ھ میں وفات پائی۔
شدچو از دنیائے دوں سوئے جناں |
|
سالِ وے محبوب مسعود آمدہ |
(خزینۃ الاصفیاء)