حضرت شیخ حسین بن صالح جمل اللیل شافعی مکی رحمۃ اللہ علیہ
اسمِ گرامی: آپ کا اسمِ گرامی سیدی شیخ حسین بن صالح شافعی مکی تھا اور جمل اللیل کے نام سے معروف ومشہور ہوئے۔
سیرت وخصائص: حضرت شیخ سیدی حسین بن صالح جمل اللیل علوی فاطمی قادری مکی قدس سرہ حرم مکہ میں شافعیہ کے مشہور ترین امام و خطیب تھے۔ آپ عجیب خوش اوقات اور بابرکت بزرگ تھے۔ بلاد عرب میں آپ کا حلقہ ارادت بہت وسیع تھا۔
امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ جب پہلی بار حج بیت اﷲ کے لئے تشریف لے گئے تو ایک دن مقام ابراہیم میں نماز مغرب کے بعد حضرت شیخ حسین بن صالح نے بلا تعارف سابق آپ کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر اپنے دولت کدہ لے گئے اور دیر تک آپ کی پیشانی کوپکڑ کر فرمایا:"بے شک میں اس پیشانی میں اﷲ کا نور پاتا ہوں"۔
اور تاقیام مکہ معظمہ حاضری کا تقاضا و اصرار فرمایا۔ آپ کو صحاح ستہ اور سلسلہ قادریہ کی اجازت اپنے دست مبارک سے لکھ کر عنایت فرمائی اور فرمایا !تمہارا نام "ضیاء الدین احمد" ہے۔ اس سند کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں امام بخاری علیہ الرحمہ تک فقط گیارہ واسطے ہیں۔ پھر آپ کو اپنی کتاب "الجوہرۃ المضیہ" سنائی اور فرمایا:"اکثر اہل ہند اس سے مستفید نہیں ہوسکتے۔ ایک تو عربی زبان میں ہے۔دوسرے مذہب شافعی میں ہے اور اہل ہند اکثر حنفی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کی تشریح آپ اردو زبان میں کردیں اور اس میں مذہب حنفیہ کی توضیح بھی کردیں"۔
امام احمد رضا نے آپ کی کتاب "الجواہرۃ المضیہ" جوکہ مسلک شافعی میں مناسک حج کے بیان پر مشتمل ہے، اس کا اردو ترجمہ کیا اور صرف دو دن میں اس کی اردو تشریح تحریر فرمائی اور اس کا تاریخی نام "النیرۃ الوضیہ فی شرح الجوہرۃ المضیہ"رکھا۔ پھر بعد میں تعلیقات و حواشی کا اضافہ فرمایا اور اس کا تاریخی نام "الطرۃ الرضیہ علی نیرۃ الوضیہ" رکھا۔
تاریخِ وصال: آپ کا وصال 1884 ھ میں ہوا۔