حضرت شیخ بہلول دریائی کے مرید و خلیفہ تھے۔ ان کا دادا کلجس رائے ہندو تھا اور فیروز شاہ تغلق کے عہد میں مُسلمان ہوا تھا۔ حسین کا باپ عثمان نامی دین دار آدمی تھا۔ بافندگی پیشہ تھا۔ شیخ حسین ۹۴۵ھ میں پیدا ہوئے۔ سات برس کے ہوئے تو لاہور کے ایک فاضل حافظ ابو بکر کے حلقۂ درس میں شامل ہوکر قرآن شریف حفظ کرنا شروع کیا۔ چھ سات پارے حفظ بھی کر لیے تھے اور کچھ دینیات میں بھی استعداد بہم پہنچالی تھی کہ اسی اثنا میں شیخ بہلول واردِ لاہور ہُوئے۔ ایک روز شیخ ابو بکر کی مسجد میں تشریف لائے اور شیخ حسین کو دریا سے ایک کُوزہ پانی کا لانے کے لیے کہا۔ اس وقت دریائے راوی ٹکسالی دروازے کے باہر بہتا تھا۔ شیخ حسین دریا پر گئے اور کوزہ میں پانی بھر لائے۔ شیخ بہلول نے وضو کیا، نماز پڑھی اور شیخ حسین کے حق میں دُعا کی کہ اے الٰہی اس لڑکے کو عارف اور اپنا عاشق بنا۔ شیخ حسین بھی ان کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے۔ اُنہی ایّام میں ماہِ رمضان شروع ہوگیا۔ شیخ بہلول نے حسین کو نمازِ تراویح میں امام بنایا حسین نے مرشد کی توجہ سے تمام قرآن سُنادیا۔ صاحب حقیقۃ الفقرا نے اسے یُوں نظم کیا ہے:
در زمانے کہ شیخ سوئے حسین |
|
آمد از بہرِ جستجوئے حسین |
شیخ بہلول نے چند سال ہی میں حسین کو درجۂ کمال تک پہنچادیا اور اپنے وطن قصبۂ چندیوٹ (چنیوٹ) میں چلے گئے۔ اس کے بعد شیخ حسین نے چھبیس(۲۶) سال آبادی سے دُور ویرانے میں شب و روز ریاضت و مجاہدہ میں گزارے مگر رات کو حضرت شیخ علی ہجویری داتا گنج بخش کے مزار پر آکر اعتکاف میں بیٹھتے۔ اس دوران میں آپ کو حضرت مخدوم کی زیارت بھی ہوتی اور تمام مزار پُر نُور ہوجاتا۔ اس طرح حسین حضرت کی توجہ سے کامل و اکمل ہوگئے اور نورِ باطن سے تمام اسرار و رموز آپ پر منکشف ہوگئے۔ صاحب حقیقۃالفقرا لکھتے ہیں:
کہ بنا گہ ز مرقدِ پُر نُور |
|
کرد در دیدۂ حسین ظہور |
شیخ حسین چھتیس برس کی عمر میں شیخ سعد اللہ لاہوری سے تفسیرِ مدارک پڑھ رہے تھے۔ جب آیہ وَمَا الحیٰوۃُ الدُّنیا اِلَّا لَھْو وَلَعب پر پہنچے تو استاد سے اس کے معنے دریافت کیے۔ انہوں نے اس کے جو معنی تھے، بیان کیے۔ شیخ نے کہا: مجھے حال مطلوب ہے قال نہیں۔ یہ کہا اور کتابوں کو اُٹھا کر کنویں میں پھینک دیا۔ دُوسرے طلبہ نے اس پر اعتراض کیا۔ اُن کے مطالبہ پر کتابیں نکال کر اُن کے حوالے کردیں جو ہنوز خشک تھیں اور رقص و سرور کرتے ہوئے مسجد سے باہر آگئے اور طریقۂ[1] ملامتیہ اختیار کرلیا۔ دارا شکوہ نے بھی انہیں ملاتیوں کے گروہ کا سردار لکھا ہے۔ یہ طریقہ اختیار کرنے کے بعد کُوچہ و بازار میں اسی طرح پھرتے۔ چارا برو کا صفایا، ہاتھ میں شراب کا پیالہ، سرور اور نغمۂ چنگ و رباب تمام قیودِ شرعی سے آزاد جس طرف چاہتے، نکل جاتے۔ صاحبِ حقیقۃ الفقراء لکھتے ہیں: ایک روز اپنے دوستوں کی خواہش پر حسین دریائے راوی کی طرف سیر کو نکل گئے اور موضع منڈیا نوالہ پہنچے۔ وہاں کے زمیندار سردار بہادر خاں نے شیخ کے دوستوں کو پکڑ کر ایک جگہ بند کردیا اور حسین سے کہا: میں انہیں اس وقت تک رہا نہیں کروں گا جب تک آپ بارش کے لیے دُعا نہیں کریں گے۔ آپ نے بہادر خاں سے کہا: بہتر اگر تم میرے دوستوں کے لیے نانِ مرغن اور شیر و شکر پیش کرو تو اللہ تعالیٰ مینہ برسادے گا کیوں کہ سیر کے دوران میں آپ کے دوستوں نے ان چیزوں کے کھانے کی خواہش ظاہر کی تھی بہادر خاں نے یہ تمام چیزیں مہیّا کردیں۔ شیخ اور اس کے دوستوں نے کھانے کے بعد دعا کی، اسی وقت بادل نمودار ہُوا۔ مینہ برسا اور بارش سے زمینیں سیراب ہوگئیں۔ روایت ہے ایک شخص حاجی یعقوب نامی مدینہ منوّرہ کا رہنے والا تھا۔ وُہ ہمیشہ شیخ حسین کو روضۂ نبوی میں معتکف دیکھتا۔ اس طرح وہ ان کا شناسا ہوگیا۔ ایک دفعہ وہ ہندوستان آیا۔ لاہور بھی پہنچا۔ بازار میں دیکھا کہ ڈھول بج رہا ہے اور شیخ شراب کے نشہ میں چُور رقص کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہی پہچان لیا۔ اطمینان کے لیے لوگوں سے نام و نشان پُوچھا۔ پاس جاکر دریافت کیا۔ یہ کیا حال ہے۔ شیخ نے کہا: آنکھیں بند کرو۔ اس نے آنکھیں بند کرتے ہی اپنے آپ کو مدینہ منوّرہ میں اور حسین کو روضۂ نبوی میں معتکف پایا۔
نقل ہے۔ شیخ حسین کے دشمنوں نے اکبر بادشاہ سے شکایت کی کہ لاہور میں ایک شخص حسین نامی ہے۔ جو داڑھی مونچھیں منڈواتا ہے۔ سُرخ لباس پہنتا ہے۔ کھلے بندوں خلافِ شریعت امور کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایک حسین لڑکے کےمادھو کواپنے پاس رکھتا ہے اور اس کا ہاتھ کو پکڑ کر ڈھول کی آواز پر رقص کرتا ہے۔ اس کے باوجود باطنی ولایت کا دعویدار بھی ہے۔ اکبر نے ملک علی کو توالِ شہر کو حکم بھیجا کہ حسین کو گرفتار کرکے دربار میں پیش کیا جائے۔ کوتوال کی تلاش کے باوجود حسین گرفتار نہ ہوسکے۔ ایک دن اتفاقاً حسین اور کوتوال کا بازار میں آمنا سامنا ہوگیا اس نے حسین کو گرفتار کرلیا۔ اُس وقت کوتوال ایک راہزن عبداللہ بھٹی نامی کو پھانسی دے کر فارغ ہُوا تھا۔ کوتوال حسین کو جو زنجیر ڈالتا تھا وُہ خود بخود ٹوٹ جاتی تھی۔ کوتوال نے کہا حسین تو اپنے شعبدہ سے جو جی چاہے کر میں تیرے پاؤں میں میخ ٹھونک کر بادشاہ کے حضور پیش کروں گا۔ حسین نے کہا: میں نے بھی اللہ تعالیٰ سے التجا کی ہے کہ تیرے جسم میں میخیں ٹھونکی جائیں اور تو اسی صدمے سے مرے۔ اکبر نے کوتوال کو حکم بھیجا تھا کہ عبداللہ بھٹی پھانسی پانے کے وقت جو کلمات زبان سے نکالے وُہ بلا کم و کاست لکھ کر بھیجے جائیں۔ چنانچہ کوتوال نے من و عن وہی الفاظ دربارِ اکبری میں بھیج دیے۔ اکبر یہ الفاظ پڑھ کر سخت غضب ناک ہُوا کہ کوتوالِ شہر کو اس طرح ہُو بہُو نہیں لکھنا چاہیے تھا۔ اس نے یہ کلمات لکھ کرمیری دل آزاری کی ہے۔ اس پاداش میں کوتوال کو بھی عبداللہ بھٹی کی طرح پھانسی دی جائے۔ اس واقعہ کے بعد شیخ حسین کو اکبر کے سامنے پیش کیا گیا۔ حسین اُسی طرح مست و مخمور جام و صراحی ہاتھ میں لیے حاضرِ دربار ہوئے۔ اکبر نے کہا تو سلسلۂ قادریہ کا پیرو ہوکر یہ مے نوشی و امرد پرستی کیوں کرتا ہے۔ حسین نے اپنی صراحی سے ایک پیالہ بھر کر اکبر کے سامنے پیش کیا اکبر نے دیکھا تو وُہ سرد پانی سے بھرا ہُوا تھا۔ دُوسرا پیالہ پیش کیا تو وُہ شربت سے پُر تھا۔ اسی طرح تیسرا پیالہ دودھ سے۔ اکبر نہایت متعجب ہوا۔ بادشاہ نے بغرضِ امتحان جیل بھجوادیا کہ اگر صاحبِ کرامت ہے ہے تو زنداں میں نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اکبر جب شیخ حسین کو جیل بھجواکر زنانہ خانہ میں گیا تو شیخ حسین کو بادشاہ بیگم کے پاس کھڑا دیکھا۔ پھر قید خانہ میں جاکر دیکھا تو حسین کو وہاں بھی موجود پایا۔ یہ دیکھ کر اکبر نے شیخ کو رہا کردیا۔
نقل ہے: جب اکبر نے عبدالرحیم کو خان خاناں کو ملک ٹھٹھہ کی تسخیر پر مامور کیا تو وہ شیخ حسین کی خدمت میں برائے استمداد حاضر ہوا۔ شیخ نے کہا میں نے پانچ سو روپے کے عوض یہ ملک تیرے ہاتھ میں فروخت کردیا۔ جاؤ مظفر و منصور ہوگے۔ اب کسی اور ولی سے مدد نہ مانگنا۔ چنانچہ عبدالرحیم ٹھٹھہ جاتے ہوئے حضرت شیخ الاسلام بہاء الدین زکریا ملتانی کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے حاضر ہوا اور شیخ کبیر بالا پیر سجادہ نشینِ بارگاہِ کی خدمت میں ایک سو روپیہ بطور نذر گزارنا شیخ نے قبول نہ کیا فرمایا ملکِ ٹھٹھہ تو پہلے ہی تجھے شیخ حسین دے چکے ہیں۔ اب نذرانہ لینے کی کیا حاجت ہے۔ صاحبِ معارج الولایت لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ مخدوم الملک عبداللہ سلطان پوری قاضئ لاہور نے شیخ حسین کی شراب میں سرمست ڈھول کی آواز پر رقص کرتے ہوئے دیکھا، سخت سرزنش کی۔ شیخ نے مخدوم الملک کے گھوڑے کی باگ تھام کر کہا: اے قاضی ارکانِ اسلام پانچ ہیں۔ اوّل کلمۂ توحید اور اقرارِ رسالت حضرت سرورِ عالمﷺ۔ اس میں ہم دونوں شریک ہیں میں نماز روزہ کا تارک ہُوں اور تُو حج و زکوٰۃ کا۔ تعزیر صرف مجھ پر بھی نہیں تجھ پر بھی ہے۔ مخدوم الملک یہ سُن کر ہنسا اور چل دیا۔
صاحبِ حقیقۃ الفقراء لکھتے ہیں کہ شیخ حسین کے مرید نو ہزار کے قریب تھے جو ان کے ذریعے سے کامل و اکمل ہوئے۔ بعض نے شیخ کے مریدوں کی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار لکھی ہے۔ ان میں سے سولہ خلفاء زیادہ مشہور ہوئے ہیں، جن کے مختلف خطابات تھے۔ ان میں سے چار کا خطاب غریب ہے، چار کا دیوان، چار کا خاکی اور چار کا بلاول۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلا شاہ غریب : ان کا مزار موضع رقی ٹھٹھہ وزیرآباد کے قریب ہے۔
دوسرا شاہ غریب : موضع منگووالی تحصیل وزیرآباد۔
تیسرا شاہ غریب : بمقام اچیلا پور دکن۔
چوتھا شاہ غریب : ہزاروی۔ اس کا مزار آپ کے مزار کے متصل ہے۔
چار دیوان:
پہلا دیوان مادھو
دوسرا دیوان گورکھ لاہور۔ اس کا مزار آپ کے مزار کی چوکھنڈی میں ہے۔
تیسرا دیوان بخش بمقام بیجا پور۔
چوتھا اللہ دیوان لاہور میں مدفون ہے۔
چار خاکی:
پہلا مولانا بخش خاکی۔
دوم خاکی شاہ لاہوری۔ ان کا مزار آپ کے مزار کے قرب و جوار میں ہے۔
سوم خاکی شاہ وزیرآباد۔
چہارم حیدر بخش خاکی۔ جن کا مزار دکن میں ہے۔
چار بلاول:
اول شاہ رنگ بلاول۔
دوم بدھو بلاول۔
سوم شاہ بلاول۔
ان تینوں کے مزار شیخ حسین کے مزار کے قرب و جوار میں ہیں۔
چہارم شاہ بلاول دکن میں مدفون ہیں۔
شیخ حسین[2] ۹۴۵ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۰۰۸ھ میں ۶۳ سال کی عمر میں بعہد اکبر وفات پائی۔ شیخ حسین پنجابی پراکت کے شاعر بھی تھے۔ آپ کی کافیاں مشہور ہیں۔ اِن کے مذکورہ بالاخلفاء میں سے مادھو زیادہ مشہور ہیں۔ یہ قوم کے برہمن تھے۔ شاہد رہ میں رہتے تھے۔ حسین و جمیل تھے۔ شیخ حسین کے منظورِ نظر تھے اور انہی کی رغبت سے مسلمان ہوئے تھے۔ شیخ کی وفات کے بعد اِن کے خلیفہ و جانشین ہوئے۔ ۹۸۲ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۰۵۲ھ میں شاہ جہان کے عہد میں وفات پائی۔
قطعۂ تاریخ ولادت و وفات:
طالبِ عشق و عاشق جانباز |
|
ماہِ عالم حسین نور العین |
[1]۔ اکابر مشائخ طریقت اس طریقہ کے متعلق جو رائے رکھتے ہیں حضرت مخدوم سیّد علی ہجویری نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں اس کی تین صورتیں بیان کی ہیں:
اول ایک شخص سیدھی راہ چلتا ہے۔ نیک نیتی سے اپنا کام کرتا ہے۔ احکامِ خداوندی بجا لاتا ہے۔ دینی معاملات میں دین پروری کی رعایت کرتا ہے۔ اس پر لوگ اس کی ملامت کرتے ہیں مگر وہ اس کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ ایسے ہی مومنوں کی صفت قرآن کریم میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ یہ خاصانِ خدا ملامت سے نہیں ڈرتے۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ کا علم بڑا وسیع ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص لوگوں میں ہردلعزیز اور صاحبِ عزّت ہو۔ اُس کی طبیعت اس کی طرف لگ جائے مگر وہ اپنا دل اُس طرف سے موڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور تکلف سے ایسا طریق اختیار کرے کہ جس سے لوگ متنفر ہوکر اس سے الگ ہوجائیں اور اسے بُرا بھلا کہنے لگیں لیکن شریعت کو اس سے کچھ نقصان نہ ہو۔
تیسری صورت یہ ہے کہ کسی کو کفر اور گمراہی دامن گیر ہوجائے۔ اس سبب سے وہ شریعت کی متابعت ترک کر کے کہے کہ یہ ملامتی طریقہ ہے جو میں نے اختیار کیا ہے۔ ہر حال میں اپنی رائے پر عمل کرے اور لوگ اسے کُچھ نہ کہیں۔ کسی نام سے اُسے پکاریں، وہ پروا نہ کرے۔ اس قسم کی ملامت ریاکاری ہے اور تارکِ فرض دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
شیخ حسین ملامتیہ طریقہ اختیار کرنے کے بعد علانیہ شراب پیتے، گانا سنتے۔ طوائفین ان کی مجلس میں آتیں اور رقص و سرور سے اِن کی محفل کو گرماتیں۔ شیخ حسین خود بھی اپنے محبوب و منظورِ نظر مادھو کے ساتھ رقص کرتے تھے اور داڑھی مُونچھ منڈاتے تھے۔ ان کے حلقہ نشین بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ نماز روزہ کے ساتھ انہیں سروکار نہ تھا۔ جب تک کوئی شخص داڑھی مونچھ کا صفایا نہ کرادیتا اس وقت تک مرید نہ سمجھا جاتا۔ وُہ اپنے مرید کو اپنے ہاتھ سے شراب کا پیالہ دیتے۔ اگر وُہ پی لیتا تو مریدوں میں سمجھا جاتا نہیں تو مجلس سے باہر نکال دیا جاتا۔
ان ظاہری بدعتوں اور خلافِ شریعت باتوں کے باوجود صاحبِ کرامت ولی سمجھے جاتے تھے، حالانکہ ‘‘استقامات فوق الکرامت’’ کے اصول کے مطابق استقامتِ دین ہی ولی کی سب سے بڑی کرامت ہے۔ ان خلافِ شریعت امور کے باجود صاحبِ کرامت سمجھے جاتے تھے۔ حالانکہ کرامات جزوِ ولایت نہیں ہیں۔ داراشکوہ نے حسنات العارفین میں ان کی بڑی تعریف کی اور ایک دو کرامتوں کا بھی ذکر کیا ہے نیز اپنی تصنیف شطحیات میں ان کے متعلق لکھتا ہے کہ شہزادہ سلیم اور اکبر کی اکثر بیگمات شیخ کی عقیدت مند تھیں۔ سلیم نے خاص کر ایک درباری بہار خاں نامی کو مقرر کر رکھا تھا کہ وُہ ان کا روزنامچہ لکھتا رہے۔ یہ روزنامچہ رسالۂ بہاریہ کے نام سے مشہور ہے۔ شیخ حسین کی سوانح حیات کے قدیم مأخذ یہی دو(۲) کتابیں ہیں۔ رسالۂ بہاریہ اور حقیقت الفقراء، رسالہ بہاریہ اکبر کے عہد میں لکھا گیا اس کا مصنّف منشی بہار خاں ہے جسے جہانگیر نے شیخ حسین کے روزنامہ لکھنے پر مقرر کیا تھا۔ دوسری کتاب حقیقت الفقرأ ہے۔ یہ کتاب شیخ مادھو کے ایک مرید پیر محمد نے شاہ جہاں کے عہد میں نظم میں لکھی تھی۔ یہ دونوں کتابیں آج کل نایاب ہیں۔ شاید کسی صاحب کے نجی کتاب خانے میں ہوں مگر ان کے اقتباسات جو تذکروں میں لکھے گئے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں کتابیں محض تقلیدی اور اعتمادی رنگ کی ہیں۔ خزینۃ الاصفیا میں بھی ان دونوں کتابوں کا ذکر اور اقتباس درج ہیں۔ شاید حضرت مفتی صاحب مغفور کی نظر سے یہ کتابیں گزری ہوں۔ کتاب و سنّت کا مقصود تزکیہ ظاہر و باطن ہے۔ ولی کی سب سے بڑی کرامت اس کا اتباعِ کتاب و سنّت ہے۔ اس کے علاوہ وہ جو کچھ بھی ہے ٹکسال باہر ہے۔ کہتے ہیں جب شیخ حسین کے مرشد حضرت شیخ بہلول کو حسین کی ان حرکات کا علم ہوا تو وہ لاہور تشریف لائے اور حسین سے کہا کہ آج میرے ساتھ نماز پڑھو اور نماز ہی میں سارا قرآن ختم کرو۔ چنانچہ شیخ حسین نے نماز شروع کی اور جب ’’الم نشرح لک صدرک‘‘ پر پہنچے تو بے اختیار ہنس پڑے اور نماز ختم کردی۔ دارا شکوہ اس کی یہ تاویل کرتا ہے کہ شیخ حسین نے شاید اس سورۂ پاک کا یہ مفہوم سمجھا تھا کہ آیا ہم نے تیرے سینے کو توحید اور معرفت سے نہیں کھولا اور تجھ پر وہم اور انانیت کا بار نہیں ڈالا جو تیری پشت کو پست کرتا ہے اور کیا ہم نے تجھ کو ذکر سے مذکور تک نہیں پہنچایا۔ اس لیے ہر فنا کے بعد بقا ہے اور بیشک جس کو ہم نے فنا بخشی اسے بقا دے کر ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔ پس جب تونے انانیت اور ہستیٔ موہوم سے فراغت حاصل لرلی ہے تو ہماری ہستی پر قائم ہوجا اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جو ظاہر و باطن کا رب ہے۔ اس واقعہ کے بعد شیخ حسین پھر کبھی اپنے مرشد سے نہیں ملے۔ اس قسم کی رکیک تاویلات دارا شکوہ کے مرشد جناب ملا شاہ بدخشانی اور ان کے دادا پیر حضرت میاں میر نے بھی بعض قرآنی آیات کے متعلق کی ہیں مثلاً ’’یٰآ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوُا لَا تَقرُبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمُ سُکرٰیٰ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے ملا شاہ بدخشانی نماز ہی سے معافی حاصل کرلیتے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’اے کسانیکہ ایمانِ حقیقی آور دہ اید۔ نزدیکِ نماز نشوید درحالت سکرومستی۔ مقید سکر حالتِ بلند تراست از نماز گزاراں۔ اگر مستی مجازی ست قربِِ نماز ممنوع است۔ تا نماز ملوث نہ شود۔ دریں صورت عزتِ نمازست و اگر سکرِ حقیقی ست باز ہم قربِ نماز ممنوع است۔ دریں صورت عزت سکراست۔ مصلی نماند نماز کہ خواند‘‘۔
جناب ملا شاہ کے مرشدِ گرامی حضرت میاں میر صاحب ’’خَتَمَ اللہ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ وَعَلٰی اَبْصارِھِمْ غِشَاوَۃٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْم‘‘ کی تفسیر فرماتے ہیں۔ درحقِ خاصاں ست۔ ختم ست برو لہائے ایشاں کہ دردل ایشاں غیر نیا ید و چشم ایشاں غیر نہ بیند۔ وگوشِ ایشاں غیر نشنود و مرایشاں لذت و حلاوتِ بسیارست ازان کفر‘‘ حسنات العارفین ص۳۲ بحوالہ مقدمہ ۳۷۳۔ از دارا شکوہ۔ جناب ملا شاہ بدخشانی مرشدِ داراشکوہ کا ایک مشہور شعر ہے:
پنجہ در پنجئہ خدا وارم
من چہ پر وائے مصطفیٰ وارم
اس پر علمائے کشمیر نےکفر کا فتویٰ بھی دیا تھا اور شاہجہان بادشاہ سے شکایت بھی کی تھی (تذکرۃ العلماء و المشائخ ص ۳۵) ذہنی اور معتقدات کے لحاظ سے دارا شکوہ اس قسم کے اعمال و افعال کا موید تھا اسی لیے اپنی کتاب حسنات العارفین یا شطحیات میں ان اقوال کی تائید و حمایت کرتا ہے۔ خود حضرت میاں میر کو باری تعالیٰ کہا کرتا تھا اسی کتاب میں لکھتا ہے: چو ایشاں درکوہ ہائے نواحی قصبۂ باری عزت گزیدہ بود ندمن ایشاں را حضرت باری تعالیٰ می گفتم۔ حسنات العارفین ص۳۰۔ اسی رسالہ میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ توحید و معرفت کے منازل اور مدارج طے کرتے ہوئے ایک ایسا مقام بھی آتا ہے جہاں سالک شریعت و طریقت کفر و ایمان، خیر و شر سے بالکل بے نیاز ہوجاتا ہے اور اس کی زبان سے بے خودی کی حالت میں بعض کلمات ایسے بھی نکل جاتے ہیں جو بظاہر مذہب و ایمان کے منافی ہوتے ہیں۔ لیکن اِن کلمات کو قابلِ مواخذہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسی کتاب کی تمہید میں لکھتا ہے: ’’وجد و ذوق کی حالت میں اس کے منہ سے ایسے کلماتِ بلند حقائق نکل جاتے ہیں۔ جن کو سن کر پست فطرت، دوں ہمت اور زاہدِ خشک اپنی کوتاہ بینی سے تکفیر کے فتوے دیتے ہیں۔ اس تکفیر سے بچنے کے لیے میں نے یہ کتاب لکھی ہے‘‘۔ غرض اس عہد کے حالات و واقعات کا اگر پوری طرح جائزہ لیا جائے تو یہ بات پُوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ شیخ احمد ہندی مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے جہاں اکبری الحاد و زندقہ کے استیصال کے لیے اس کے جانشین جہانگیر سے ٹکر لی اور اسلام کو اُس کی اصلی حالت پر قائم رکھا وہاں اُن غیر اسلامی نظریات و معتقدات کی اصلاح کی طرف بھی قدم اٹھایا جس کے مبدء اس قسم کے بے قید و بے شرع جاہل صوفی ہو رہے تھے۔ آپ نے اپنے مکتوبات میں جگہ جگہ اتباع کتاب و سنت کی تاکید فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں جو چیز سنّت کے خلاف ہے وُہ بدعت ہے اور بدعت شیطان کی پسندیدہ ہے فرمایا: ہر بدعت سنّت کو اُٹھا دیتی ہے اس میں کسی بدعت کی کوئی تخصیص نہیں۔ لہذا ہر بدعت سیئہ ہے اور شریعت کا دارو مدار اتباع شریعت پر ہے۔ معاملۂ نجات اتباع رسول ﷺسے وابستہ ہے اور اتباع رسول ﷺکے بغیر ہر شے غیر مقبول ہے۔ حتّٰی کہ زہد و تقویٰ و توکل بھی‘‘ آپ کے بعد آپ کے فرزندوں اور خلفا نے آپ کی تعلیمات پر پوری پوری استقامت فرمائی۔
[2]۔ عزیز القدر جناب محمد اقبال مجددی نے شاہ حسین کی ایک نامعلوم تصنیف رسالہ ’’تہنیۃ‘‘ سے متعارف کرایا ہے۔ شاہ حسین لاہوری کا ایک غیر معروف رسالہ ’’تہنیتہ‘‘ کے زیرِ عنوان مع مقدمہ مجددی صاحب مجلّہ معارف اعظم گڈھ اگست ۱۹۷۰ء میں شائع ہوچکا ہے۔ مجددی صاحب کے مقدمہ کی تلخیص درجِ ذیل ہے، جو شاہ حسین کے بارے میں ایک نیا اندازِ فکر دے گی:
’’شاہ حسین کی رند مشربی کے قصّے تذکرہ نویسوں نے مزے لے لے کر بیان کیے ہیں۔ لیکن شاہ حسین نے آخر عمر میں تمام خلافِ شرع حرکات ترک کردی تھیں اور ارکانِ اسلام کی پابندی کرنے لگے تھے۔ معارج الولایت میں ہے:‘‘ دگویند وقتے کہ وفات اونزدیک رسید ہمہ امورِ نا مشروعہ راترک نمودہ بہ نماز و روزہ مشغول گشت، گفتند دریں حکمت چیست؟ فرمود بزینے می روم کہ آں راور زیدہ و ساکنان آں موضع معرفت حاصل نہ گر دانیدہ، نمی دانم تا حالِ من چہ خواہد شد، در ہمیں حال برحمت حق پیوست (معارج الولایت خطی نسخہ ذخیرہ پروفیسر سراج لادین آذر کتب خانہ دانش گاہ پنجاب، ورق ۵۱۹ب) حقیقت الفقراء جو ۱۰۷۱ھ کی تصنیف ہے کی روایت کے مطابق شاہ حسین کا انتقال جمادی الاخریٰ ۱۰۰۸ھ میں ہوا۔ مگر مفتاح العارفین (قلمی) مولفہ عبدالفتاح بن محمد نعمان (تصنیف بعد ۱۰۹۶ھ) میں سالِ وفات ۱۰۱۳ھ لکھا ہے۔ شاہ حسین لاہوری کی تصانیف میں سے اب تک صرف کافیاں ہی منظر عام پر آئی ہیں اور کافیوں کے قدیم و جدید ایڈیشن تحریف سے خالی نہیں ہیں۔ خوش قسمتی سے شاہ حسین کا رسالہ ’’تہنیتہ‘‘ (فارسی) وستیاب ہوگیا ہے۔ یہ رسالہ فصول پر مشتمل ہے۔ مسائل عمومی تصوف سے متعلق ہیں۔ اس رسالہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ حسین فی الواقعہ ذی علم اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے لوگوں نے ان کی طرف فرضی حکایات منسوب کر رکھی تھیں اور بڑے بڑے علماء ان حکایات کو سن چکے تھے۔ چنانچہ عبداللہ خویشگی قصوری نے اخبار الاولیا خطّی (تصنیف ۱۰۷۷ھ) میں حضرت شیخ محمد طاہر لاہوری (متوفّٰی ۱۰۴۰ھ) کا قول نقل کیا ہے:
’’اگر مجھے علمائےظاہر کے طعنوں کا خدشہ نہ ہوتا تو میں ضرور شاہ حسین لاہوری کے مزار پر جاتا اور استمداد کرتا۔‘‘ حضرت شیخ محمد طاہر لاہوری کی شاہ حسین سے اظہارِ ارادت اور مزار پر حاضری و استمداد کی خواہش کا اظہار اس امرکا بیّن ثبوت ہے کہ ان کی طرف منسوب حکایت محض پادر ہوا ہیں۔ رقم الحروف کو رسالہ ’’تہنیتہ‘‘ کا خطّی نسخہ مولانا سیّد شریعت احمد شرافت قادری نوشاہی مدظلہ العالی (ساکن ساہن پال ضلع گجرات) کے ذاتی کتب خانے سے ملا۔ اصل رسالہ اور مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو معارف اعظم گڈھ بابت اگست ۱۹۷۰ء۔