آپ بلند مقامات اور ارجمند کرامات کےمالک تھے سادات عظام حسینہ سے تعلق رکھتے تھے اپنے وقت کے شیخ المشائخ اور قطب الاقطاب تھے آپ کی نسبت شیخ اوحدالدین اصفہانی سے تھی پہلے آپ گاز رون میں سکونت فرما تھے۔ مگر اشارہ غیبی سے لاہور وارد ہوئے۔ ایک طویل عرصہ خلق خدا کی خدمت میں مصروف رہے آپ سے خوارق و کرامات کا ظہور ہوتا رہا۔لاہور کے علماء کرام اور مشائخ عظام آپ کے حلقہ عقیدت میں بیٹھتے اور فیض پاتے ظاہری اور باطنی مہمات کے حل کے لیے آپ کی صحبت نہایت کارگر ثابت ہوا کرتی تھی۔
تحفۃ الواصلین کےمولّف لکھتے ہیں کہ آپ کے حلقہ میں جو بھی ایک بار آتا۔ متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا اور جانے سے پہلے کچھ نہ کچھ فیض پا لیتا ایک دن لاہور کا ایک متمول آدمی آپ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ وہ شخص اپنی دولت کے غرور میں کسی کو خاطر میں نہ لایا کرتا تھا۔ آپ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ تو وہ غصہ سے آپ کی شان میں گالیاں بکنے لگا۔ اور آپ کو بڑا کہتا رہا مگر اس بدگوئی اور دشنام طرازی کے باوجود حضرت میراں بادشاہ کے چہرے پر کوئی تغیر نہ آیا حاضرین مجلس نے عرض کی حضرت اس نہجار آدمی کو اتنی کھلی چھٹی دے دینا اچھا نہیں اسے اپنی گستاخی کی سزا ملنا چاہیے آپ بدُعا فرمائیں تاکہ اسے سزا ملے۔ شیخ نے ان عقیدت مندوں کے کہنے پر آسمان کی طرف سر اٹھایا اور زیر لب کچھ کہا وہ بے ادب اسی وقت تڑپ کر زمین پر گرگیا اور بے ہوش پڑا رہا ہوش آنے پر سرقدموں میں رکھ دیا۔ اور حضرت کا مرید ہوگیا۔ شیخ نے حاضرین مجلس کو بتایا میں نے اس شخص کے لیے دعاء خیر کی تھی اللہ نے قبول فرمالی ہے اللہ نے اسے چشم باطن کی روشنی سے نوازا ہے اس پر عالم حکومت روشن ہوگئے ہیں اس نے مجھے پہنچان لیا ہے کیا یہ کام اچھا ہے یا آپ کے خواہش پر بد دعاؤں سے سزا پاتا تو اچھا تھا۔
تحفۃ الواصلین میں سید اسحاق کی وفات ۷۸۷ھ لکھی ہے بعض قدیم مورخین نے آپ کا سال وفات ۷۸۶ھ لکھ کر بِسمَ اللہ الرحمٰن الرحیمط سے سالِ وفات لیا ہے۔ تحفۃالواصلین کے مولّف نے یہ لکھا ہے۔
سید اسحاق ولی کریم سالِ وصالش عجب آمد ز دل
|
|
گشت چوں زیں دہر بجنت مقیم بِسمَ اللہ الرحمٰن الرحیمط ۷۸۶ھ
|
|
وفات کے بعد آپ کو اندرون شہر شاہی راستہ کے کنارہ پر دفنایا گیا یہ مقام دہلی دروازہ لاہور کے اندر واقع ہے آپ کا مزار گوہر بار ابھی تک مرجع خلایٔق ہے۔
مرزا لعل بیگ نے اپنی کتاب ثمرات القدس (ابھی تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئی) میں ذکر کیا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کے مزار پر ایک بیل جو ہمیشہ سر سبز رہتی ہے (غالباً عشق پہچان یا گلوتھی) چھاگئی یہ بیل برصغیر میں ادویات کے کام بھی آتی ہے ایک عرصہ تک آپ کا مزار اس بیل کے نیچے محفوظ رہا اور آفاتِ زمانہ اور تغیرات موسم سے بچا رہا۔لوگ اس مزار کو سبز اسحاق سے یاد کرتے تھے بیمار لوگ پتے لے جاتے اور شفا حاصل کرتے ایک وقت آیا کہ مغل دور کے ایک امیر زادے نے اپنی حویلی بنائی اور بیل کو کاٹ دیا اور مزار کو اپنے احاطے میں لے لیا مگر اس قبر کا ادب ملحوظ خاطر رکھا وہ بیل آب و ہوا کی تبدیلی سے سوکھ گئی آخر کار ۱۰۳۷ھ میں شاہجانی دَور میں نواب وزیر خان حاکم لاہور نے اس جگہ مسجد وزیر خان کی بنیاد رکھی اور مزار کو مسجد کے صحن میں زیر زمین محفوظ کرکے عظیم الشان مسجد بنائی جو ابھی تک زیارت گاہ عوام و خواص ہے۔
سید اسحاق مرد طاق نورِ ذوالجلال سالِ ترحیلش چو جستم ازدل پرور د خویش
|
|
آنکہ خلتش سیّد دین مرشد آفاق گشت ہاتفم نور الٰہی شاہ بواسحاق گفت ۷۸۶ھ
|
|
سیّد محمود میراں بادشاہ سے بھی تاریخ وفات برآمد ہوئی ہے۔
(خزینۃ الاصفیاء)