شیخ جلال الدین کاسی چشتی قدس سرہ
شیخ جلال الدین کاسی چشتی قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
آپ کا نام جلال خان تھا پٹھانوں کے کاسی قبیلہ کے بہت بڑے رئیس تھے شیر شاہ سوری کے دربار میں اعلیٰ منصب پر فائز تھے سلطنت افغانان کے زوال کے بعد مغلوں نے انتقامی کاروائیاں شروع کیں تو جلال خان کے دل سے دنیا کے جاہ و جلال سے دل اچاٹ ہوگیا اور شاہ محمد چشتی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے مرید ہوئے مگر ایک عرصہ تک فتح کے دروازے نہ کھل پائے ایک عرصہ کے بعد شاہ محمد چشتی نے بتایا کہ آپ کے معاملات شیخ بدرالدین صاحب ولایت کے اختیار میں ہیں۔ وہاں جائیں جلال خاں وہاں پہنچے تو ایک عرصہ تک خانقاہ کی جاروب کشی کرتے رہے فارغ اوقات میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے رات کو مجاہدات اور ریاضت میں گزارتے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا تو ان کے مرشد نے ایک نگاہ سے انہیں منازل سلوک طے کرادئیے مزار اقدس سے آواز آئی جلال بدر الدین۔ بدرالدین جلال۔ اس طرح آپ کمالات کو پہنچے لوگوں میں بڑی شہرت ملی بے پناہ لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں آنے لگے ایک دن آپ کے دل میں خیال آیا کاش میرا کوئی فرزند معنوی ہوتا تو میں بھی اسے ان فیوضات سے مالا مال کرتا یہ خبر وقت کے صاحب ولایت کو ملی تو آپ نے فرمایا اب ہم تمہارے لیے فرزند رشید کا بھی بندوبست کریں گے اس کی تربیت میں کوئی کسر اٹھانہ رکھیں۔ اتفاقاً اسی علاقہ میں ایک ہندو کاستھ قوم سے تھا وہ لکھنو کے دربار میں منصب دار تھا۔ اس کا ایک چودہ سالہ بیٹا ظاہری حسن و جمال میں اپنی مثال آپ تھا وہ ان دنوں سعدی کی کتاب گلستان پڑھتا تھا جب وہ گلستان کے دیباچہ میں اس شعر پر پہنچا۔
بلغ العلی بکما لہٰ
کشف الدجیٰ بجما لہٰ
حسنت جمیع خصا لہٰ
صلوٰہ علیہ و آ لہٰ
لڑکے نے اپنے استاد سے پوچھا یہ کون شخص ہے جس کی اتنی تعریف کی گئی ہے استاد نے بچے کوسیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے واقف کیا اور بڑی تعریف فرمائی بچے کے دل پر اس کی گفتگو کا اتنا اثر ہوا کہ وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا بچے کے مسلمان ہونے کی خبر نے ہندوؤں میں ایک طوفان برپا کر دیا ہندوؤں کے شور و ہیجان سے وہ بچہ گھر سے نکلا بدایوں شہر جاپہنچا وہاں اسے جلال الدین کی خانقاہ میں رسائی ہوئی ادھر صاحب ولایت نے روحانی طور پر حضرت جلال الدین کو آگاہ فرمایا جس معنوی بیٹے کی تلاش میں تھے وہ تمہارے پاس آپہنچا ہے اس کا نام مخدوم عبداللہ رکھو یہی تمہارا جانشین ہوگا شیخ جلال الدین نے اس بچے کی تربیت کی اُسے ظاہری اور باطنی علوم سے پہرہ ور کیا ادھر صاحب ولایت کی روحانی نگاہ نے بچے کی شخصیت کو اور اہم بنا دیا حضرت شیخ کا معمول تھا کہ آدھی رات کو اٹھتے صاحب ولایت کے آستانہ پر پہنچ کر تلاوت قرآن کرتے صبح نماز کے بعد اپنے اہل و عیال کی طرف شہر میں چلے جاتے تھے ایک دن آپ جا رہے تھے کہ راستہ میں چور رات کا مال تقسیم کر رہے تھے انہیں شک گزرا کہ یہ شخص ہمارے حالات سے واقف ہوگیا ہے کہیں ہم پکڑے نہ جائیں آپ پر تیروں کی بارش کردی جس سے آپ شہید ہوگئے آپ کو اپنے صاحب ولایت کے مزار کے پاس دفن کیا گیا۔ آپ کی شہادت اکبر بادشاہ کے آخری دور اقتدار میں ہوئی تھی یہ ایک ہزار تیرہ صدی ہجری تھی۔ مخدوم عبداللہ آپ کی جگہ مسند ارشاد پر بیٹھے بڑی شہرت ملی لوگ جوق در جوق آنے لگے مخدوم عبداللہ کی کشف و کرامات کی شہرت دُور دُور تک پھیلنے لگی مخدوم عبد اللہ ساری ساری رات عبادت کرتے اکثر راتیں ایک پاؤں پر کھڑے کھڑے گزار دیتے تھے اس علاقہ کے اکثر لوگ آپ کے حلقۂ ارادت میں آتے گئے ان دنوں قصبہ رائے بریلی کے ایک رئیس طاہا بھی آپ کے عقیدت مند ہوگئے تھےاس نے بھی ترک دنیا کر کے یاد الٰہی کو اپنی زندگی بنالیا مخدوم سید ،جہانگیر بادشاہ کے عہد حکومت ایک ہزار چوتیس ہجری میں فوت ہوئے اور اپنے مرشد شیخ جلال الدین کے پہلو میں دفن کردیے گئے شیخ طاہا نے آپ کی مسند سنبھالی۔
چوں جلال آں دلی اہل کمال
صورت سر و شد نباغ جناں
ہست شیخ زمانہ تاریخش
۱۰۱۳ھ
نیز مشتاق حق جلال بخواں
۱۰۱۳ھ