حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی قدس سرہٗ
حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
آں غریق بحر وصال، آں بیرون از افہام رجال، آں منزہ از عوارض کیف و کم، ناظر جمال وھو معکم، ہمگی دلش مصبوغ بہ صبغۃ اللہ، جملگی روحش مشغوف، فثم وجہ اللہ جلیں مسند حق الیقین قطب اقلیم، حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ کا شمار اس طائفہ صوفیاء کے محبین اور محبوبین میں ہوتا ہے۔ آپ شان عظیم، طبع کریم، لطف عمیم اور حالت مستقیم کے مالک تھے۔ آپ نے اپنے اوپر اس قدر ریاضات ومجاہدات لازم کر رکھے تھے کہ شدت بھوک کی وجہ سے آپکا نفس امارہ جسم مبارک سے رخصت ہوچکا تھا۔ لیکن استقامت میں ذرا بھر فرق نہ آیا۔ آپ کشف و کرامات میں بےنظیر تھے۔ تربیت مریدین میں آپ ید طولیٰ رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ ایک نظر سے ساکنان ملک ناسوت (دنیا) کو مشاہدۂ ملک جبروت ولاہوت سے مشرف کراکر عالم بے رنگی (ذاتِ بحت) سے آشنا کرادیتے تھے۔ آپ حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی کے مرید وخلیفۂ جانشین ہیں۔ آپکا اسم شریف خواجہ محمد اور لقب جلال جلال الدین تھا۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی محمود تھا۔ اور آپ کا سلسلۂ نسب امیر المومنین حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس طرح جا ملتا ہے۔ حضرت شیخ جلال الدین بن خواجہ محمود بن کریم الدین بن خواجہ یعقوب بن جمیل الدین بن خواجہ عیسیٰ بن مجد الدین خواجہ اسماعیل بن شرف الدین بن خواجہ محمد بن بدر الدین خواجہ ابابکر بن صدر الدین خواجہ علی بن شمس الدین خواجہ عثمان بن نجم الدین خواجہ عبید اللہ، بن شہاب الدین خواجہ عب الرحمٰن ثانی بن زین الدین خواجہ عبد العزیز السرخشی بن فخر الدین کواجہ خالد بن ضیاء الدین خواجہ ولید بن قطب الدین خواجہ عبدالعزیز الکبیر بن رکن الدین خواجہ عبد الرحمٰن جو مدینہ منورہ سے گاذرون آئے تھے، ابن علاؤ الدین خواجہ عبداللہ ثانی ابن علم الدین خواجہ عبدالعزیز بن حسام الدین خواجہ عبداللہ کبیر بن امام الدین خواجہ عمر ابن امیر المومنین امام المتقین، حبیب الرحمٰن حضرت عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ آپ مادرزادولی تھے۔ اور ایام طفلی سے محبت الٰہی اور جذبۂ الٰہی میں مستغرق تھے آپ اکثر صحرا میں جاکر زکر خدا میں مشغول ہوجاتے تھے۔ آخر کار ذاتِ مطلقت میں استغراق آپ پر اس قدر غالب ہوا کہ دوسرےکسی کام کی طرف جاہی نہیں سکتے تھے۔ لیکن نماز پنجگانہ کے وقت آپکے مریدین آپکو خبردار کردیتے تھے۔ جب آپ مراقبہ سےسر اٹھاتے تھے جو کچھ زبان مبارک سےن کلتا فوراً ہوجاتا تھا۔ آپ سماع اکثر سناکرتے تھے اور مشائخ عظام کے عرس بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کی مجالس میں علماء ومشائخ کا اجتماع رہتا تھا۔ خلق خدا آپ کی گرویدہ اور ہر قسم کی خدمت کیلئے کمر بستہ تھی۔ نیز کشی شخص کو اس بات کی جرأت نہ ہوتی تھی کہ آپ کے سماع پر اعتراض کرے۔ آپ کی مصنفہ ایک کتاب ہے جسکا نام ہے ‘‘زاد الابرار’’۔ یہ کتاب حقائق و معارف سے لبریز ہے۔ آپ چالیس برس سفر میں رہے اور کئی بار حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ آپ نے بے شمار مشائخ کرام اور اولیائے عظام سے نعمت حاصل کی۔ آپ کے کمالات کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ مخدوم شیخ احمد عبدالحق جیسے شاہباز بلند پرواز آپ کے مرید وخلیفہ ہیں۔ حالانکہ حضرت شیخ احمد عبدا لحق قدس سرہٗ نے دہلی اور اسکے علاقے کے تمام مشائخ کی صحبت اختیار کی لیکن حضرت شیخ جلال ایدن قدس سرہٗ کے سوا کسی بزرگ سے آپ کی مشکل حل نہ ہوئی۔ شیخ جلال ایدن کے والد ماجد بڑے دولت مند اور صاحب جاہ وحشمت تھے اور پنای پت میں رہتے تھے۔ شیخ جلال الدین نہایت حسین و جمیل تھے اور لباس فاخرہ زیب تن کرتے تھے۔ اور عیش و عشرت سے زندگی بسر کرتے تھے۔ اسکے ساتھ آپ سخی بھی تھے۔ کہتے ہیں کہ آپ شیخ بو علی قلندر کےم نظور نظر تھے۔ اور ایام طفلی سے انکے درمیان محبت کا رابطہ تھا۔ شیخ بو علی قلندر روزانہ شیخ جلال سے ملنے کی خاطر ان کے مکان پر جایا کرتے تھے ایک دن شیخ جلال ایدن خٰرمن سے اپنا حصہ لینے کی خاطر زمین پر گئے ہوئے تھے۔ شیخ بو علی بھی گھوڑے پر سوار ہوکر انکو ملنے وہاں چلےگئے۔ جب شیخ جلال الدین نے انکو دور سے دیکھا اپنے دامن میں غلہ بھر کرلے آئے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ بیٹے یہ کیا کر رہے ہو شیخ جلال الدین نے جواب دیا کہ آپکے گھوڑے کیلئے دانہ لایا ہوں۔ انہوں نے کہا گھوڑے سے پوچھو اگر اسے بھوک لگی ہے تو کھلادو۔ شیخ جلال نے گھوڑے کی طرف منہ کر کے کہا کہ تیرے لیے غلہ لایا ہوں کھاؤ گے؟ گھوڑے نے جواب دیا کہ میرا پیٹ بھرا ہوا ہے مجھے غلے کی ضرورت نہیں۔ یہ دیکھ کر شیخ جلال الدین حیران رہ گئے۔ انکی حیرت دیکھ کر شیخ بو علی قلندر ک نے فرمایا کہ حیران کیوں ہوتے ہو۔ میں نے یہ غلہ تجھے بخشا ہے اور خدا تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ تجھے اتنی اولاد نصیب ہو جتنے یہ دانے ہیں۔ چنانچہ انکی دعا برکت سے حق تعالیٰ نے انکو بہت اولاد عطا فرمائی۔
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ ایک دن شاہ بو علی قلندر راستے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ شیخ جلال گھوڑے پر سوار ہوکر وہاں سے گذرے۔ جب بو علی قلندر نے انکو دیکھا تو فرمایا زہے اسپ وزہے سوار (کیسا گھوڑا اور کیسا سوار) یہ سنکر شیخ جلال الدین پر حالت طاری ہوگئی اور گھوڑے سے اُتر آئے اور گریباں چاک کر کے صحرا میں نکل گئے اور مدت تک پھرتے رہے۔ اُس وقت قطب عالم شیخ جمال الدین ہانسوی بقید حیات تھے۔ انکو غیب سے بشارت ہوئی کہ شیخ جلال الدین پانی پتی آرہے ہیں۔ ان سے ملو۔ انکی دعا کی برکت سے تمہارا سلسلہ جاری ہوجائیگا۔ شیخ جلال الدین ابھی شہر میں نہیں پہنچے تھے کہ شیخ جمال نے خادم سے کہا کہ اس طرف جاؤ۔ چند درویش ملیں گے انکو میرا سلام دینا اور یہاں آنے کی دعوت دینا۔ خادم نے حکم کی تعمیل کی۔ چند قدم جانے کے بعد درویشوں سے ملاقات ہوئی تو اس نے انکو شیخ جمال کا پیغام دیا۔ درویشوں نے دعوت قبول کی اور اپنا سامان شیخ جلال کے حوالہ کر کے شیخ جمال کے پاس چلے گئے۔ شیخ جمال کھڑے انتظار کر رہے تھے جب انکو شیخ جلال الدین نظر نہ آئے اور اشارۂ غیب سے انکی جو علامات بتائی گئی تھیں انہوں نے کسی شخص کے اندر دیکھیں تو درویشوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ بھائی جس شخص کی مجھے جستجو تھی وہ تو نظر نہیں آرہا۔ درویشوں نے جواب دیا کہ ہم سب آگئے ہیں صرف ایک بچہ باقی رہ گیا ہے جسے ہم سامان کی حفاظت کیلئے چھوڑ آئے ہیں۔ شیخ جمال نے فرمای کہ مجھے اس بچے سے کام ہے۔ چنانچہ شیخ جمال نے انکو کھانا کھلایا اور ایک آدمی کو بھیجا تاکہ شیخ جلال کو لے آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد شیخ جلال آگئے۔ جب شیخ جمال نے انکو دیکھا تو بہت عزت وتکریم سے پیش آئے اور کھانا پیش کیا۔ فراغت کے بعد شیخ جمال نے باقی درویشوں کو آرام کی خاطر دوسرے مقام پر بھیج دیا اور شیخ جلال الدین سے خلوت میں کہا کہ ایک دفعہ میں نے شیخ علی احمد صابر قدس سرہٗ کا خلافت نامہ چاک کردیا تھا اور انہوں نے میرے سلسلہ کو چاک کردیا تھا۔ جب یہ بات حضرت خواجہ گنجشکر تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ شیخ جمال کے سلسلہ کو اب کوئی شخص زندہ نہیں کر سکتا سوائے ایک شخص کے کہ جو شیخ صابر کے سلسلہ م یں ہوگا اور اسکا نام شیخ جلال الدین پانی پتی ہوگا۔ اگر وہ دعا کرے تو شیخ جمال کا سلسلہ جاری ہوسکتا ہے۔ اب مجھے غیب سے بشارت ہوئی ہے کہ وہ شخص آپ ہیں۔ مہربانی فرماکر دعا کریں تاکہ میرا سلسلہ جاری ہو۔ شیخ جلال الدین نے فوراً وضو کیا اور دو رکعت نفل پڑھ کر دعا کی اور فاتحہ پڑھا۔ اسکے بعد شیخ جمال سے رخصت کے بعد درویشوں کے پاس چلے گئے۔ حق تعالیٰ نے آپکی دعا قبول فرمائی۔ حتیٰ کہ شیخ جمال کے وصال کے بعد شیخ نور الدین کو جو ابھی چھ ماہ کے بچے تھے حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کی خدمت میں دہلی لے جایا گیا۔ حضرت سولطان المشائخ نے بچے کو مرید کیا اور خلعت خاص عطا فرماکر رخصت کردیا۔ چنانچہ حضرت شیخ جلال الدین کی دعا اور حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کی عنایت سے شیخ جمال کا سلسلہ پھر سے جاری ہوگیا۔ جب اُن درویشوں نے حضرت شیخ جمال سے رخصت طلب کی تو انہوں نے سب کو رخصت دیدی۔ لیکن شیخ جلال الدین سے فرمایا کہ آپ خدا تعالیٰ کے دوست ہیں اور کما لات کے مالک ہیں آپ کیلئے مناسب نہیں کہ سرگرداں پھرتے رہیں۔ آپ اپنے وطن واپس جائیں وہاں ایک مرد صاحب کال سے جن کا نام شمس الدین ترک ہے آپ کی ملاقات ہوگی اور آپ کے فتح باب کا انحصار ان پر موقوف ہے۔ اور ان ہی سے آپ کو مراد ملے گی۔ اگر مجھے اجازت ہوتی تو ہرگز دریغ نہ کرتا۔ چنانچہ شیخ جلال الدین پانی پت جانے کیلئے تیار ہوگئے۔ لیکن وہ درویش جنکی شیخ جلال کی وجہ سے خاطر تواضع ہورہی تھی یہ بات پسند نہیں کرتے تھے کہ آپ سے جدا ہوجائیں۔ بلکہ ان کی صحبت کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھا اور رختِ سفر جو پہلے شیخ جلال سے اٹھواتے تھے اب خود اٹھانے لگے۔ لیکن شیخ جلال نے اُسی وسعت مشرب کا مظاہرہ کیا اور اُن سے سامان لیکر خود اٹھالیا اور روانہ ہوگئے۔ درویشوں نے دیکھا کہ وہ بوجھ آپ کے سر پر معلق ہورہا تھا۔ اس سے وہ بہت حٰرت زدہ ہوئے اور پہلے سے بھی زیادہ آپ کے معتقد ہوگئے اور سارا سامان زبردستی اُن سے لے لیا۔ یہ کہتے ہوئے کہ آپ کے ہمارے ساتھ ہونا ہی ہمارے لیے فخر کی بات ہے بلکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ساری عمر آپ کی خدمت میں گذاردیں۔ آپ نے جو ابدیا کہ مجھے آپلوگوں سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی بلکہ آپ کی صحبت میں مجھے راحت ملی ہے۔ میں آپ سب سے راضہوں اور اب یہ چاہتا ہوں کہ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اپنے وطن کو چلا جاؤں۔ چنانچہ شیخ جمال کی وصیت کے مطابق آپ اُن سے رخصت حاصل کر کے وطن پہنچ گئے۔ لیکن روایت راقم الحروف (مؤلف اقتباس الانوار) کے نزدیک ضعف سے خالی نہیں ہے۔ بلکہ بے بنیاد ہے۔ جیسا کہ ارباب روحانیت سے مخفی نہیں۔
سیر الاقطاب میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک دفعہ شیخ جلال الدین پانی پتی مشرق کی جانب سفر کرتے ہوئے ایک مقام پر پہنچے جہاں لوگ اپنا سامان باندھ کر بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے جب آپ نے ایک آدمی سے اسکیوجہ دریافت کی تو اس نے کہا کہ مالوہ کا حاکم لگان وصول کرنے آیا تھا اور یہ لوگ لگان اداکرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لیے مفرور ہورہے ہیں۔ آپ نے فرمایاکہ اپنے سرادار کو گلاو۔ جب انکا سردار آیا تو آپ نے اس سے کہا کہ اگر اس قدر زر پیدا ہوجائے کہ تم لوگ لگان بھی ادا کردو اور کچھ تمہارے لیے بچ بھی جائے تو کیا کہتے ہو۔ اس نے جواب دیا کہ یہ بات نا ممکن ہے البتہ دوستان خدا کے نزدیک بہت آسان ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پہلے یہ کام کرو کہ اس گاؤں کو میرے ہاتھ پر فروخت کردو تاکہ نام میرا ہو اور سکونت تم رکھو۔ رئیس نے یہ بات قبول کرلی۔ اسکے بعد آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں کے پاس جس قدر لوہے کے اوزار ہیں سب یہاں جمع کردو۔ اور اوپلوں کا ڈھیر لگاکر اسکو آگ لگادو۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ آپ نے فرمایا اچھا اب جاؤ صبح واپس آکر اپنے اوزار واپس لے جانا۔ یہ کہہ کر آپ رات کی تاریکی میں غائب ہوگئے۔ صبح جب لوگ وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اُن کے تمام اوزار خالص سونا بن چکے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے لگان ادا کی اور خوشحال ہوگئے۔ حتی کہ آج تک وہ مال دار ہیں۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ کوہستان میں سیر کر رہے تھے۔ وہاں ایک جوگی کو دیکھا کہ پہاڑ کی چوٹی پر آنکھیں بند کیے بیٹھا ہے آنحضرت دیر تک اسکے سامنے کھڑے رہے۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو آپ کو سامنے کھڑا ہوا پایا۔ اس نے اپنے کپڑوں میں سے ایک پتھر کا ٹکڑا نکال کر حضرت شیخ جلال الدین کو دیا اور بتایا کہ اسے پارس کہتے ہیں۔ اگر پارس کو لوہے سے لگایا جائے تو لوہا سونا ہوجاتا ہے۔ آپ نے اسے لیکر پانی کے چشمے میں پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر جوگی حیران ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے یہ چیز ہزار کوشش اور محنت سے حاصل کی تھی تم نے اسکی قدر نہیں پہچانی اور اسے ضائع کردیا۔ میں نے تو آپکے حال پر رحم کیا تھا کہ فقرو فاقہ سے نجات مل جائیگی اب تم یہ کرو کہ ہر حال میں وہ چیز پانی سے تلاش کر کے مجھے واپس دو۔ آپ نے فرمایااے جوگی جب تم نے وہ چیز مجھےنجش دی تو وہ میری ہوگئی۔ اور میں نے جو چاہا کیا۔ جوگی نے جواب دیا کہ آپ سچ کہتے ہیں۔ لیکن مجھے افسوس ہورہا ہے کہ تم نے ایسی بے بہادولت کو میرے سامنے برباد کردیا۔ لہٰذا جب تک تم وہ چیز واپس نہیں کروگے یہاں سے تمہاری خلاصی نا ممکن ہے۔ جب حضرت اقدس نے دیکھا کہ جب تک وہ پتھر اُسے واپس نہیں ملتا زبان درازی سے باز نہیں آئیگا۔آپ نے فرمایا کہ اے کم عقل پانی کے انر آؤ اور اپنا پتھر اٹھالو۔ اگر اس قسم کے بہت سے پتھر تجھےمل جائیں تو حرص نہ کرنا۔ جب جوگی نے چشمہ کےاندر قدم رکھا تو اس جیسے بیشمار پتھر پڑے ہیں اور سب سے اوپر اسکا اپنا پتھر پڑا ہے۔ یہ دیکھ کر حیران ہوا۔ چنانچہ اس نے اپنا پتھر اتھالیا لیکن حرص اور لالچ نے اسےمجبور کیا اور ایک اور پتھر اٹھالیا۔ اب وہ اسے چھپانا چاہتا تھا حضرت اقدس نے روشن ضمیری سے معلوم کرلیا اور فرمایا کہ اے کور باطن وعدہ خلافی کر رہا ہے۔ اس سے جوگی پیشمان ہوا اور پانی سے باہر آتے ہی دونوں پتھر حضرت اقدس کےسامنے پھینک دیئے اور سر آپ کے قدموں میں رکھ کر کہنے لگا کہ حضور جس علم و معرفت نے آپ کو اس چیز سے مستغنی کردیا ہے مجھے بھی اس سےکچھ عنایت فرمایئے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نعمت اسلام لائے بغیر نہیں مل سکتی۔ جوگی نےفوراًکلمہ طیبہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔ اسکے بعد حضرت شیخ کی تربیت سے بلند مراتب کو پہنچا۔
سیر الاقطاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت شیخ جلال الدین نے چالیس سال کے بعد اپنے وطن مالوف میں قیام فرمایا تو ایک دن شیخ بو علی قلندر کے پاس جاکر راہِ حقیقت کے متعلق معلومات چاہیں کیونکہ آیام طفولیت سے آپکا انکے ساتھ اعتقاد و اخلاص تھا۔ شاہ بو علی قلندر نے فرمایا کہ آپ کی کُشائش ایک اور بزرگ کےہاتھ میں ہے جو یہاں کا صاحب ولایت ہوگ۔ا ور آج کل اس شہر میںپہنچ جائیگا۔ چنانچہ شیخ جلال الدین اس بزرگ کی آمد کا انتظا ر کرنے لگے۔ اس وجہ سے کہ شیخ جمال نے بھی یہی بات کہی تھی کچھ عرصے کے بعد جب حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پت تشریف لائے اور سکونت اختیار کی تو شیخ جلال انکی بیعت سے مشرف ہوئے۔ یہاں تک سیر الاقطاب کا کلام ہے۔ لیکن مراۃ الاسرار میں یہ لکھا ہے اور صحیح بھی یہی ہے کہ حضرت شیخ جلال کے والد بڑے مالدار تھے اور آپ ایام طفولیت سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ نیز اس سے پہلے کوئی سفر بھی نہیں کیا تھا۔ بلکہ ہمیشہ شکار وغیرہ میں مصروف رہتے تھے۔ ایک دن جب لباس فاخرہ زیب تن کیا اور عراقی گھوڑے پر سوار ہوکر حضرت شیخ شمس الدین ترک کی خانقاہ کے قریب گذرے اور ان کی نظر کیمیائے اثر شیخ جلا لک ے حسن وجمال پر پڑی تو انہوں نے تصرف ولایت سے اپنی طرف جذب کرلیا۔ پس وہ گھوڑے سے اتر کر ائے اپنا سر حضرت شیخ کے قدموں پر رکھ دیا۔ اور شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ اسکے بعد حضرت شیخ نے خدمت میں رہ کر آپ کے فیض تربیت سے بلند مراتب کو پہنچے۔ حضرت اقدس نے آپکو اسم اعطم کی بھی تلقین فرمائی۔ چنانچہ حضرت شیخ شمس الدین ترک کے وصال کے بعد آپ انکی مند رشد وہدایت پر متمکن ہوئے۔ اور ایک جہان آپ سے فیض یاب ہو۔ا آپکا لنگر اس قدر وسیع تھا کہ بیان سے بہار ہے۔ ہر روز ایک ہزار آدمی آپ کے دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھ۔ جس روز ایک ہزار سے کم ہوتے تو خادم لوگ کو چہ وبازار میں جاکر آدمی لے آتے اور انہیں قسم و قسم کے کھانے کھلاتے حتیٰ کہ طبق اور سر پوس بھی لوگ ساتھ لے جاتے تھے اور لنگر خانہ میں واپس نہیں کرتے تھے۔ جب آپ شکار کو جاتے تو دس، پندرہ بیس دن شکار میں مصروف رہتے۔ وہاں بھی لنگر کا یہی حال رہتا اور اُسی مقدار میں آدم ی آپ کے دستر خوان پر کھان اکھاتے تھے ۔ حتیٰ کہ آخری عمر تک آپکے جو د وکرم کا یہ عالم رہا۔ یہ اس وجہسے تھا کہ حضرت شیخ شمس الدین ترک قدس سرہٗ نے بیعت کرتے وقت آپ سے فرمایا تھا کہ ایں ہم دادم وآن ہم دادم (میں نے تم کو یہ بھی دیا اور وہ بھی) املاک واسباب، مال و دولت، اونٹ، گھوڑے وغیرہ بیش در بیش موجود تھے۔ لیکن حضرت کی ذات بابرکات غلبۂ استغراق ذات میں ان تمام چیزوں سے مستغنی تھی۔ یہ مال دولت تو کیا چیز ہے آپ کو کون و مکان کی بھی خبر اور پرواہ نہیں تھی مشائخ طریقت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ نے مشب قلندریہ اختیار کر رکھا تھا اور موجودات م یں سے کسی چیز کی طرف التفات نہیں فرماتے تھے آپ کے کمالات و کرامات اس قدر زیادہ ہیں کہ اس مختصر سی کتاب میں انکی گنجائش نہیں۔
سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ ایک عزیز تھا جسکا نام احمد قلندر تھا۔ جو ترکستان سے آکر تلاش شیخ میں پڑھ رہا تھا۔ شیر و سیاحت کی حالت میں وہ ہندوستان کے لکھی جنگل میں پہنچا اور وہیں سکونت اختیار کرلی۔ اسکے بعد اس نے اطراف وجوانب کے مشائخ کے پاس دعوت نامے لکھے۔ چنانچہ حضرت شیخ جلال الدین بھی اسکی دعوت پر وہاں جا پہنچے۔ جب دستر خوان پر کھانے لگائے گئے تو مہمان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حرام جانرورں مثل بلی، بندر وغیرہ کے گوشت پکے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے کھانا کھانے سے پرہیز کیا اور حضرت شیخ جلال الدین کی خدمت میں عرض کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا تم لوگ گھبراتے کیوں ہو۔ خدا تعالیٰ سے یہ عرض کیوں نہیں کرتے کہ الٰہی اس دستر خوان پر جو حرام ہے اسکو یہاں سے دور کردے۔ جونہی آپ نے یہ بات کہی خدا کے حکم سے ہر جانور جسکا گوشت دستر خوان پر موجود تھا زندہ ہوکر جنگل کی طرف بھاگ گیا اور تمام طبق خالی رہ گئے۔ اسکے بعد احمد قلندر نے شیخ جلال الدین کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میری دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس بہانے کسی صاحب دولت بزرگ کی صحبت حاصل ہو اور میں اُس سے عرفان حاصل کروں۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے آپ کی ذات پاک کو بندہ کی طرف بھیج دیا۔ اسکے بعد اس نے تمام مشائخ کو عزت و اکرام کے ساتھ رخصت کیا اور حضرت شیخ جلال الدین سے شرف بیعت حاصل کیا۔ حضرت شیخ نے کچھ عرصہ اسکی تربیت فرماکر مرتبہ تکمیل تک پہنچایا اور خلافت دیکر ملتان بھیج دیا اور خود پانی پت کی طرف چلے گے۔
حضرت شیخ احمد عبدالحق ردولوی کی بیعت
ان ایام میں حضرت شیخ احمد عبدالھق رد ولوی قدس سرہٗ بھی شرف بیعت سے مشرف ہوئے۔ مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ جب حضرت شیخ احمد عبدالھق حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت ہوئے تو کلاہِ ارادت پہننے کے بعد اُسی جگہ سکونت پذیر ہوگئے اور حضرت شیخ احمد عبدالھق پر تجرید کا غلبہ تھا۔ آپ کی طبیعت میں ذرا تنفر پیدا ہوا۔ صاحب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ قطب عالم حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ لکھتے ہیں کہ ایک دن شیخ جلال الدین کے ایک مرید نے حضرت شیخ احمد عبدالحق کو گھر پر بُلاکر جیافت دی۔ طعام کے ساتھ کچھ منشیات بھی تھے۔ جب آپ کی نظر منشیات پر پڑی تو فوراً اٹھ کر حضرت شیخ جلال الدین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور طاقیہ ارادت (مریدی کی ٹوپی) واپس کرکے جنگل کی طرف نکل گئے۔ لیکن جنگل میں کوئی راستہ نہیں ملتا تھا۔ آخر تنگ آکر ایک درخت کے قریب گئے جہاں دو مردِ غیب نمودار ہوئے۔ شیخ عبدالحق نے اُن کے پاس جاکر دریافت کیا کہ راستہ کس طرف ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ راستہ شیخ جلال الدین کے در پر جاکر گم ہوجاتا ہے۔ یہ بات تین مرتبہ کہہ کر وہ انکی نظروں سے گم ہوگئے یہ دیکھ کر انکو یقین ہوگیا کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں اور مجھے یہ بتانے آئے ہیں کہ تیری مشکل شیخ جلال الدین کے ہاں حل ہوگی۔ چنانچہ کمال ندامت سے انہوں نے توبہ کی اور حضرت شیخ کی خدمت میں واپس آگئے۔ واپس آکر کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت شیخ جلال الدین وہ طاقیۂ ارادت ہاتھ میں لیے دروازہ پر کھڑے انتظار کر رہے ہیں۔ شیخ عبدالھق نے آتے ہی سر قدموں میں رکھ دیا آپ نے کمال لطف و کرم سے ا نکا سر اوپر اٹھاکر انکو بغل میں لے لیا اور کلاہَ ولایت انکے سر پر رکھ کر اسرار حق سے آشنا کیا۔ اسکے بعد فرمایا کہ بابا عبدالحق آج میرےم ہمان ہو۔ اسکے بعد خادم لنگر کو حکم دیا کہ ہر قسم کا کھانا تیار کرو اور اسکے ساتھ ہر قسم کےمنشیات بھی رکھ دینا۔ جب خادم نے تمام کھانے اور منشیات دستر خوان پر لگا دیئے تو آپ نے شیخ عبدالحق اور دوسرے احباب کو دستر خوان پر بلایا اور شیخ عبدالحق کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ بابا عبدالحق جس برتن کو تم حضرت احدیت سے جدا اور بعید سمجھو اسکو ہاتھ نہ لگاؤ اور اس سے پرہیز کرو۔ یہ کلمات سنتے ہی حضرت شیخ عبدالحق کی نظر جمال توحید پر پڑگئی اور اللہُ نُورۃ السّمٰوٰتِ وَالْاَرْض (اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا) کی تجلیات کا آپ کے قلب پر فوج در فوج درود ہونے لگا اور ہر جگہ فَاَیْنَمَ تَولُّوْ فَثَمَّ وجہ اللہ کا مشاہدہ ہونے لگا۔ ظہور حق کی تجلیات کی شدت سے مغلوب ہوکر آپ پر گریہ طاری ہوگیا۔ اور مدت تک خانقاہ کے ایک کونے میں پڑے رہے۔ اس عرصے میں ماسوی اللہ کی گرد سے آپکا سینہ پاک ہوگیا؎
ممکن گرد امکان برفشاند |
|
بجز واجب دیگر چیزے نماند |
(ممکن یعنی غیر اللہ کی گرد سے آپکا قلب باغ ہوگیا اور ذات واجب الوجود کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ یعنی ممکن بھی واجب نظر آنے لگا اور حادث وقدیم کا فرق مٹ گیا)۔ غرضیکہ ایک دن حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ کمال لطف و کرم سے انکے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ بابا عبدالحق کوئی چیز اختیار کرو، ہوش میں آؤ اور کچھ کھاؤ۔ انہوں نے استغراق کی حالت میں سر اوپر اٹھاکر عرض کیا کہ جب تک میں غائب تھا مجھے معلوم نہ تھا کہ کیا کھارہا ہوں کہاں سے کھارہا ہوں کیوں کھارہا ہوں۔ اب حیران ہوں کہ کیا کس چیز کو لوں اور کس چیز سے پر ہیزگ کروں اور پاک اور ناپاک میں کس طرح فرق کروں۔ کسی نے خوب کہا ہے؎
غیرتش غیر در جہاں نگذاشت
(اسکی غیرت نے دو جہانوں میں کوئی غیر نہ چھوڑا۔ یعنی سب کچھ ایک ہوگیا)
سبحان اللہ جو مقام بزرگوں کو تکمیل کے بعد حاصل ہوتا ہے وہ آپ کو ابتدا میں مل گیا۔ بہر حال جب حضرت شیخ جلال الدین نے کھانے کے متعلق بہت اصرار فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ اگر چینہ[1] خود رو ہوتا ہو تو اسکی روٹی کھائی جا سکتی ہے۔ حضرت شیخ جلال کا بھی یہی دستور تھا کہ مرید ہونے سے پہلے جب آپ نے تجرید اختیار کی تو کبھی کبھی صحرا سے خود روچینہ سے افطار کرلیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے خادموں سے کہا کہ چینہ کے آتے کی روٹی تیار کر کے لے آؤ۔ خدام چینہ اور چاول کی سفید اور صاف روٹی تیار کر کے لے آئے۔ حضرت شیخ عبدالحق نے عرض کیا کہ یہ تو چاول اور چینہ کی روٹی ہے خالص چینہ کی نہیں ہے۔ یہ سنکر حضرت اقدس نے فرمایا کہ بابا اللہُ جَمِیْلُ وَیُحِبُّ الْجَمال (اللہ وجمیل ہے اور جمال سے محبر کرتا ہے) اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک کو پاک روزی دیتا ہے اور ناپاک یعنی شرک سے محفوظ رکھتا ہے۔ جو شخص متوکل اور ہمیشہ حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ اپنے آپ کو اپنے کام کو اور اپنے حال کو ناپاک سے محفوظ رکھے تاکہ ذات پاک کے سوا سب کچھ ختم ہوجائے۔ اس وقت تم کو معلوم ہوجائیگا اور دیکھ لوگے کہ دونوں جہانوں میں سوائے ذات حق کےکوئی چیز نہیں ہے۔ جب مرشد حق نے یہ ہدایت فرمائی تو انکو اطمینان قلب و تسکین باطن حاصل ہوئی۔ اور اپنے کام میں ثابت قدم ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت شیخ کی خدمت میں رہ کر روحانی تربیت حاصل کی ۔ جیسا کہ ہمارے خواجگان کا معمول ہے کہ مرید کو ذاکر ازکار تلقین کر کے اپنے آپ سے جدا کردیتے ہیں اور مجاہدات کراتے ہیں۔ جس طرح حضرت خواجہ گنجشکر حضرت خواجہ قطب الاقطاب کی حیات میں قصبہ ہانسی میں جاکر مشغول ہوئے اسی طرح حضرت شیخ احمد عبدالحق اپنے شیخ سے رخصت ہوکر قصبہ سنام میں مقیم ہوگئے اور مختلف قسم کی ریاضات میں مشغول ہوئے۔ جس گھر میں آپ رہتے تھے اس میں ایک نیک عورت بھی رہتی تھی۔ جسکا نام فاطمہ تھا۔ فاطمہ کو شغل باطن سے اس قدر الفت تھ ی کہ شیخ عبدالحق رات بھر کی جد و جہد کے بعد اس سے سبقت نہیں کر سکتے تھے۔ وہ عورت آپکو اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتی تھی۔ وہاں سنام میں ایک دوانہ بھی رہتا تھا جو مسجد میں پڑا رہتا تھا۔ اور ساری خلقت اسکے ساتھ عجز و نیاز پیش آتی تھی۔ حضرت شیخ عبدالحق کو بھی اس مجذوب کے ساتھ کمال محبت پیدا ہوگئی۔ آپ اکثران کے پاس جاتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے خوب کھاؤ۔ ایک دن خراساں سے ایک دراز قد مجذوب آیا ور اس سنامی مجذوب سے نہایت بے باکانہ انداز میں کہنے لگا۔ کہ تم ملک کو خراب کر کے یہاں آگئے ہو اب میں تمہارے م لک کو خراب کرتا ہوں۔ دوسرے دن فاطمہ مذکور نے حجرت شیخ عبدالحق سے کہا کہ رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک حوض میں لوگ مچھلیاں مار رہے ہیں اسکی کیا تعبیر ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ میں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا ہے۔ تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ سنام برباد ہوجائیگا اور میرے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ دہلی برباد ہوجائیگا۔ چنانچہ اُن ہی ایام میں لشکر مغل نے آکر ملک کو تہ وبالا کردیا۔ شیخ عبدالحق نے اس سنامی مجذوب کے پاس جاکر دریافت کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوچکا ہے جاؤ میں نے تمہیں اللہ کے سپرد کیا۔ اسکے بعد حضرت شیخ عبدالحق بداآن کی طرف چلے گے۔
امیر تیمور کا حملہ
غرضیکہ یہ حادثہ ۸۰۲ھ میں وقع پذیر ہوا جب امیر تیمور صاحب قران ایک لشکر جرار لیکر محرم (سال مذکور) کی پہلی تاریخ کو دریائے سندھ عبور کر کے لاہور پہنچا اور قتل عام شروع کردیا اور کثیر تعداد میں لوگوں کو قید کرلیا۔ ماہ ریبع الثانی ۸۰۱ھ میں اس نے فیروز شاہ کے پوتے سلطان محمود پر حملہ کیا اور فتح یاب ہوکر سلطان محمود کو گجرات کی طرف بھگادیا۔ امیر تیمور چند ماہ ہندوستان کا تامحو وتاراج کر کے اُسی سال ماہ شعبان میں سمر قند اور بخارا کی جانب چلا گیا اور سلطان محمود ملو اقبال خان کے مارے جانے کے بعد دوبارہ دہلی کے تخت پر جا بیٹھا۔ نیز حضرت شیخ جلال الدین نے کوہِ شمال سے واپس آکر پانی پت میں سکونت اختیار کرلی۔ شیخ احمد عبدالحق ہندوستان کی زبوں حالی کو دیکھ کر بھکر کی طرف چلے گئے اور ایک مسجد میں قیام کرلیا۔ آپ روزانہ صحرا سے ایندھن جمع کر کے لے آتے تھے اور جو شخص از خود اسکی قیمت دیدیتا آپ لیکر کھانا خرید کر رکھ دیتے تھے اور جو شخص وہاں آتا اسکے سامنے رکھ دیتے تھے۔ اگر کوئی مہمان رحیم اور دانا ہوتاتو انکو بھی کھانے میں شریک کرلیتا تھا ورنہ وہ چپ چاپ بیٹھے کھانے سے محروم رہ جاتے تھے اور ساری رات شغل حقِ میں مشغول رہتے تھے۔ غرضیکہ مدت دراز تک آپ اسی حالت میں مجاہدہ کرتے رہے جس سے آپ پر عجیب احوال رونما ہوئے۔ ایک دن استغراق کی حالت میں آپکی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے واللہ محمد حجاب آمد ورنہ ذات پاک حق راجحاب نہ بودے (خدا کی قسم محمدﷺ حجاب بن کر آگئے ورنہ حق تعالیٰ کی ذات پاک کو کوئی حجاب نہ تھا)۔ اسی طرح کے اور شطحیات بھی آپ کی زبان مبارک سے نکل جاتے تھے۔ لیکن جب عالم صحو (ہوشیاری) میں آتے اور خادم آپ کو بتاتے کہ آپکی زبان سے یہ کلمات نکلے ہیں تو آپ فرماتے کہ نعوذباللہ میں گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگیا ہوں اور مجھے کفارہ دینا چاہئے۔ چنانچہ سخت سدی کی موسم میں آپ نصف شب کے وقت دریائے سندھ پر جاکر برف توڑتے تھے اور پانی مین ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر یہ ذکر کرتے تھے کہ دین محمد قائم و دائمہے۔ سردی کی شدت کی وجہ سے آپکا جسم جابجا پھٹ جاتا تھا اور خون بہنے لگتا تھا۔ صبح کو غسل کر کے آپ فجر کی نماز ادا کرتے تھے۔ چھ ماہ تک آپ یہ مجاہدہ کرتے رہے حتیٰ کہ حق تعالیٰ نے آپ کو تسکین عطا فرمائی۔ حالانکہ صوفیا اہلِ صفا کی طرح اصطلاح کے مطابق آپ کی زبان مبارک سے کوئی خلاف شرع کلمہ نہیں نکلا تھا۔ اس وجہ سے کہ ان حضرات کےن زدیک وجود کے تین مراتب ہیں۔ احدیت، وحدیت اور واحدیت، احدیت سے مراد مرتبہ ذات ہے۔ وحدیت تعین اول یعنی مرتبۂ صفات وحقیقت محمدی ہے اور واحدیت عالم کون ومکان ہے۔ چنانچہ مرتبہ وحدت برزخ اور حجاب ہے۔ احدیت اور واحدیت کے درمیان جو ذات احدیت سے فیض لیتا ہے اور عالم واحدیت کو پہنچاتا ہے۔ پس اگر وحدت جو حقیقت محمدی ہے درمیان میں برزخ اور حائل نہ ہوتی تو اہل کون و مکاں بے پردہ ذات حق کا مشاہدہ کرتے۔ اسی وجہ سے آپکی زبان مبارک سے نکلا تھا کہ واللہ محمدﷺ حجاب بن کر آئے ہیں۔ ورنہ ذاتِ حق کے لیے کوئی حجاب نہ تھا۔ لیکن حفظ شریعت کی خاطر آپ نے اس قدر مجاہدہ کیا تھا کہ لوگ جو ان رموز سے آگاہ نہیں ہیں گمراہ نہ ہوجائیں۔ اولیاء کرام اس قسم کے حفاظت اور احتیاط کو لازمی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء کو محفوظ اور انبیاء کو معصوم سمجھا جاتا ہے۔ ان باتوں سے اس علاقے میں آپ کی بہت شہرت ہوئی اور چاروں طرف خلقت کا ہجوم ہونے لگا۔ اس سے آپ متنفر ہوئے اور وہاں سے کوچ کر کے سیر کرتے ہوئے حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ کی خدمت میں پانی پت پہنچ گئے چنانچہ حضرت شیخ نے آپ کو خلافت عطا فرمائی اور رخصت فرمایا اور رخصتی کے وقت آپ نے فرمایا کہ بابا عبدالحق میں نے حق تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ تمہاری بدولت ہمارا سلسلہ جاری ہو اور سارا جہاں تمہارے نور معرفت سے منور ہو اور قیامت تک اسکا اثر باقی رہے اور اسکی شان کم نہ ہو۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تمہاری ولایت کی یہ شان ہے کہ حیات اور ممات میں مجھے اسکی کوئی حد نظر نہیں آتی۔ تم میری اولاد کی اسیری کی وقت دستگیری کرنا۔ آپ نے وصال کے وقت اپنی اولاد کو بھی یہی وصیت فرمائی کہ اسیری کے وقت تمہاری دستگیری کے لیے شیخ عبد الحق کافی ہے۔ حضرت شیخ جلال الدین کے وصال کے بعد حضرت شیخ عبد الحق قدس سرہٗ ایک مرتبہ پانی پت تشریف لے گئے اور حضرت شیخ کے فرزند اور جانشین کی تربیت فرمائی۔ آپ فرماتے ہیں کہ افسوس اگر میں نہ آتا تو مخدوم زادہ اسی طرح رہ جاتگا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ کی اولاد حضرت شیخ احمد عبدالحق قدس سرہٗ کے سلسلہ میں مرید چلی آتی ہے۔ اور حضرت شیخ کی وصیت کے مطا بق ظاہری وباطنی نعمتوں سے بہرہ ور رہی ہے۔ حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ کی سب سے بڑی کرامت یہی ہے کہ حضرت شیخ احمد عبدالحق جیسے شاہباز طریقت آپ کے غلام ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کےدیگر کرامات اور کمالات بے شمار ہیں۔
کرامات و کمالات
شیخ عبد السمیع پانی پتی سے منقول ہے کہ ایک دن حضرت شیخ جلال الدین بیٹھے تھے کہ ایک بوڑھی عورت خالی کو زہ ہاتھ میں لیے پانی لینے جارہی تھی۔ جب آپ کی نظر اس پر پڑی تو ازراہِ کرم فرمایا کہ تجھے پانی لادینے والا کوئی نہیں ہے۔ اس نے عرض کیا کہ اگر کوئی ہوتا یا میرے پاس اُجرت ہوتی تو یہ کام خود کیوں کرتی۔ آپ نے یہ سنکر اٹھے اور کوئیں سے کوزہ بھر کر اپنے کندھے پر رکھا اور اس بڑھیا کے گھر پہنچادیا۔ نیز دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ اس پانی میں برکت دے۔ اسکا اثر یہ ہوا کہ اسکے بعد وہ عورت جس قدر پانی خرچ کرتی تھی کوزہ اُسی طرح پر رہتا تھا۔ حتیٰ کہ جب تک وہ زندہ رہی اُسے دوسری بار کوزہ بھرنے کی ضرورت نہ ہوئی۔
نقل ہے کہ ایک دن ایک کیمیا گرنے حضرت اقدس کے بیٹے کے گھر فقر و فاقہ دیکھ کر کہا کہ مجھ سے کیمیا سیکھ لیں۔ انہوں نے یہ بات جاکر اپنے والد ماجد سے کہہ دی۔ آپ نے یہ سنکر فوراً دیوار پر تھوکا جس سے سارا حجرہ سونا بن گیا۔ اسکے بعد حضرت اقدس نے اپنے بیٹھے سے فرمایا کہ تم نے میرا کیمیا دیکھ لیا۔ یہ کیمیا سیکھو کہ جہاں تمہارا لعاب دہن گرے گا سونا ہوجائے گا۔ اس کیمیا گری کا کیا فائدہ جو بلائے جان ہے۔
کتاب سیر الاقطاب میں آیا ہے کہ حضرت اقدس نے اگر چہ کئی بار حج کیا تھا تاہم آپ ہر نماز جمعہ مکہ معظمہ جاکر عالمِ ارواح میں پیغمبر اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ گھر پر لوگ جس قدر تلاش کرتے تھے آپ کو نہیں پاتے تھے بلکہ دیر کے بعد آپ نظر آتے تھے۔ ایک دن آپ کے دل میں خیال آیا کہ اگر حضرت رسالت پناہﷺ اجازت فرماتے تو کبھی نماز جمعہ پانی پت میں اور کبھی مکہ معظمہ میں ادا کرتا۔ چنانچہ جب آپ مکہ معظمہ گئے اور نماز جمعہ کے بعد آنحضرتﷺ سے رخصت ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ شیخ جلال تمہارا کعبہ وہی جگہ ہے جہاں میرے بیٹے سید محمود ک امزار ہے۔ نماز جمعہ وہاں ادا کیا کرو۔ اس روز کے بعد حضرت اقدس ننگے پاؤں حضرت سید محمود کے مزار پر جاتے اور نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ سید محمود کا مزار حضرت شیخ جلال الدین کے روضہ سے قریب تر جنوب مشرق کی طرف شہر کے کنارے پر واقع ہے۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت شیخ جلال الدین اکثر عالم استغراق میں رہتے تھے لیکن آخر عمر میں استغراق بڑھ گیا۔ چنانچہ نماز کے وقت خادم آپ کے کندھے پکڑ کر ہلاتے تھے جس سے آپ ہوش میں آتے تھے اور وضو کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ نماز کے بعد پھر استغراق میں چلے جاتے تھے۔ ایک دن آپ نےاپنے پانچ بیٹوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ حق تعالیٰ کا فرمان یوں ہوا ہےکہ میں اپنی عمر کا کچھ حصہ اپنے ہمنام حضرت سید جلال الدین بخاریمخدوم جہانیاں کو بخش دوں کیونکہ ان کی عمر تمام ہوچکی ہے۔ تم لوگ اس بارےمیں کیا کہتے ہو۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم یہ کس طرح برداشت کر سکتے ہیں کہ حضور کی عمر دوسروں کو نصیب ہو۔ لیکن ایک فرزند نے جنکا اسم گرامی شبلی تھا، نے عرض کیا کہ اگر حق تعالیٰ کا فرمان یہی ہے تو دیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ دوست کے حکم کی تعمیل فوراً کرنی چاہئے۔ یہ بات سنکر حضرت اقدس بہت خوش ہوئے اور تمام بچوں کو رخصت کر کے خود استغراق میں چلے گئے۔ لیکن آپ کے بڑے بیٹے جنکا اسم گرامی شیخ عبدالقادر تھا بیٹھے رہے۔ جب حضرت اقدس ہوش میں آئے اور بڑے بیٹے کو دیکھا تو فرمایا کہ جب تم یہاں ہو تو میرے ہمراہ چلو۔ چنانچہ دونوں باپ بیٹا روانہ ہوگئے۔ تھوڑی دور جاکر آپ نے فرمایا کہ قدیم میرے قدموں پر رکھو اور آنکھیں بند کرو۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے فرمایا آنکھیں کھولو۔ جب آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو دہلی میں پایا۔ اس وجہ سے کہ حضرت مخدوم جہانیاں اس وقت دہلی میں تھے۔ جب حضرت شیخ جلال الدین حضرت مخدوم جہانیاں کی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے تو اس وقت آپ حالت نزع میں تھے۔ سلطان فیروز شاہ جو حضرت مخدوم جہانیاں کا مرید تھا وضو کی خاطر باہر گیا ہوا تھا۔ حضرت شیخ جلال الدین نے مخدوم جہانیاں قدس سرہٗ کے سرہانے کے پاس جاکر سلام علیکم کہا۔ انہوں نے آنکھیں کھولیں اور سلام کا جواب دیا۔ آپ نے انکو بغلیگر کر کے فرمایا کہ اٹھو۔ جب وہ اتھ بیٹھے تو آپ نے فرمایا وضو کرو اور دوگانہ نماز ادا کرو۔ جب انہوں نے وضو کر کے دوگانہ ادا کیا تو حضرت شیخ جلال الدین کی دست ہاتھ اٹھاکر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اشارہ کیا یعنی دس سال مزید طلب کیے۔ یہ دیکھ کر حضرت اقدس نے بھی ہاتھ اٹھائے۔ اسکے بعد سلام کر کے باہر آگئے۔ اور جس طریقے سے دہلی پہنچے تھے اُسی طرح واپس پانی پت پہنچ گئے۔ اسکے بعد حضرت مخدوم جہانیاں کو صحت کامل ہوگئی بیماری نہیں تھے۔ جب سلطان فیروز شاہ کو یہ حال معلوم ہوا تو دوڑتا ہوا حضرت مخدومجہانیاں کی خدمت میں حاضر ہوا اور کیفیت دریافت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ برادرم شیخ جلال الدین نے پانی پت سے آکر میرے لیے دعا کی ہے اور اپنی عمر سے چند سال مجھے بخشے ہیں۔ جس کی وجہ سے مجھے صحت ہوگئی ہے اور وہ اپنے وطن واپس چلےگئے ہیں۔
بادشاہ نے کہا کہ خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ میری سلطنت میں اس قسم کے بزرگ موجود ہیں۔ چنانچہ بادشاہ نے حضرت مخدوم جہانیاں سے اجازت لیکر حضرت شیخ جلال الدین کی زیارت کیلئے پانی پت کا سفر اختیار کیا۔ جب شرف باریابی ہوا تو بادشاہنے عرض کیا کہ اجازت ہو تو بندہ ایک بات پوچھے۔ آپ نے فرمایا پوچھو۔ بادشاہ نے عرض کیا کہ کیا آپ نے خدا تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ آنحضرت نے فرمایا کہ خدائے عزوجل کا ان سر کی آنکھوں سے دیکھنا شریعت میں جائز نہیں ہے۔ لیکن میں نے حق سبحانہٗ وتعالیٰ کا عکس دیکھا ہے۔ یہ بات سنکر بادشاہ بہت خوش ہوا اور نذر کثیر از قسم نقد واجناس حضرت شیخ کی خدمت میں پیش کیے۔ لیکن آپ نے کوئی چیز قبول نہ فرمائی۔ اسکے بعد بادشاہ نے وہ نذرو نیاز آپ کے فرزند کو پیش کی جو حد درجہ فقر کی زندگی بسر کر رہے تھے اور ہمیشہ گنگوں اور بہروں کی طرح خاموش رہتے تھے۔ انہوں نے اشارہ سے دریافت کیا کہ یہ کیا چیز ہے اور کس کام آتی ہے۔ لوگوں نے اشاروں سے بتایا کہ اس سے بھوکے لوگوں کے پیٹ بھرتے ہیں اور ننگوں کو کپڑا ملتا ہے۔ مخدوم زادہ نے اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ ہمارے کام کی چیز نہیں ہے۔ جس نے جان دی ہے اور پیٹ اور منہ دیا ہے وہ بے منت واحسان خلقت کو روزی بھی دے رہا ہے۔ ہمیں کسی اور کی بخشش کی ضرورت نہیں ہے ۔ آخر تنگ آکر بادشاہ نے اپنے ملازمین کو حکم دیا کہ ان چیزوں کو حضرت شیخ جلال الدین کے در پر جاکر نچھاور کردو۔ چنانچہ موسم برسات میں آج تک لوگوں کو وہاں سے سکے ملتے ہیں۔ اسکے بعد بادشاہ حضرت شیخ سے رخصت لیکر دہلی چلا گیا۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ سلطان فیروز شاہ اور اسکے بھانجے فتح خان کے درمیان یہ عہد و پیماں ہوچکا تھا کہ ہم میں سے جو شخص پہلے فوت ہوجائے حضرت رسالت پناہﷺ کے قدم کا نشان جو حضرت مخدوم جہانیاں عرب سے دہلی لائے تھے قبر میں اسکے سینہ پر رکھا جائیگا۔ چنانچہ جب فتح خان نے حضرت مخدوم جہانیاں کی شفا یابی کا واقعہ سنا تو حضرت شیخ جلال الدین سے دعا منگوانے کی خاطر گھوڑے پر سوار ہوکر تنہا پانی پت کی طرف روانہ ہوگیا۔ شام کے وقت وہان پہنچ کر گھوڑا حضرت اقدس کی خانقاہ میں باندھ کر جب اندر گیا تو حضرت اقدس اپنے حجرہ میں مشغول تھے اور شیخ زینا جو آپکے خلفاء میں سے تھے حجرے کے دروازے کھڑے کونڈی ہاتھ میں لیے مست ہاتھی کی طرح جھوم رہے تھے جب فتح خان نے حجرہ کے دروازے پر پہنچ کر اندر جانا چاہا تو شیخ زینا نے کہا کہ اے بچے کہاں جارہے ہو۔ کیا تمہیں سلامت رہنا پسند نہیں ہے۔ اس نے جواب دیا کہ سلامت اندر جاونگا اور سلامت واپس آؤنگا۔ شیخ زینا نے کہا اگر تم سلامت آئے تو میرے کپڑے پھاڑدینا ورنہ میں تمہارے کپڑے پھاڑونگا۔ چونکہ فتح خان خود اسی بات کا طلبگار تھا اور اسی لیے آیا تھا دلیرانہ طور پر حجرے کے اندر چلا گیا۔ اندر جاکر دیکھا کہ حضرت اقدس حالت استغراق میں ہیں۔ ہاتھ باندھ کر ایک کونے میں کھڑا ہوگیا۔ اور بغیر اسکے کہ کوئی شخص آپ کو اطلاع کرتا آپکی زبان مبارک سے یہ لفظ نکلا کہ ’’برویگیر‘‘ (جاؤ لے جاؤ) یہ سنکر فتح خان نے خوش ہوکر زمین بوسی کی اور باہر آگیا۔شیخ زینا کو اسی طرح مست کھڑا دیکھ کر کہنے لگا کہ دیکھو کس طرح صحیح و سلامت باہر آگیا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے بچہ! تیر نشانہ پر بیٹھ چکا ہے دہلی تک سلامت نہیں پہنچوگے۔ فتح خان نے کہا میری بھی دل و جان سے یہی آرزو ہے کہ تفاول (فال نکالنا) کی خاطر میں یہاں آیا تھا۔ الحمدللہ کہ مجھے دوبارہ بشارت مل گئی ہے۔ چنانچہ نہایت تازگی اور شگفتگی کی حالت میں گھوڑے پر سوار ہوکر دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ جب دہلی کے قریب پہنچا تو نیند نے غلبہ کیا اور گھوڑے سے اتر کر ایک درخت کے نیچے چادر تان کر سوگیا۔ اور سوتے ہی جاں بحق ہوگیا۔ جب بادشاہ کو اطلاع ہوئی تو اس نے وعدہ پورا کیا اور فتح کان کو دفن کر کے آنحضرتﷺ کے قدم کا نشان جو تھپر پر تھا انکی قبر پر سینے کے برابر نصب کردیا۔ چنانچہ آج تک وہ نقش قدم وہاں موجودہے اور زیارت گاہ بلکہ سجدہ گاہِ خلائق ہے۔ اور قیامت تک رہیگا۔ کسی نے خوب کہا ہے؎
بر زمنیکہ کہ نشان کف پائے تو بود |
|
سالہا سجدل صاحب نظراں خواہد بود |
(اے دوست جس زمین پر کہ تیرے قدم کا نشان لگ گیا قیامت تک اہل اللہ وہاں سجدہ کرتے رہینگے) اور اس زیارت گاہ کے اکثر مجاور اہل صلاح اور فقیر دوست رہے ہیں۔
سیر الاقطاب میں یہ بھی آیا ہے کہ جب حضرت سید جلال الدین مخدوم جہانیاں قدس سرہٗ کو حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی قدس سرہٗ کی دعا سے حیات نو حاصل ہوئی تو کچھ عرصہ کے بعد فرط شوق و محبت میں حضرت شیخ کی ملاقات کیلئے پانی پت پہنچے۔ چنانچہ ملاقات حاصل ہوئی اور کافی عرصہ وہاں مقیم رہے۔ آپ نے وہاں ایک چلہ بھی کیا۔ اور حضرت شیخ جلال الدین سے بے انداز نعمت حاصل کی۔ مخدوم جہانیاں کا حُجرہ حضرت بو علی قلندر کے روضہ کے سامنے آج تک موجود ہے اور ہر شخص جانتا ہے۔ لیکن راقم الحروف (مولف اقتباس الانوار) کہتا ہے کہ مخدوم جہانیاں اور شیخ جلال الدین کی ملاقات کا قصہ اور مخدوم جہانیاں کا فیض حاصل کرنا اور فتح خان کا واقعہ سیر الاقطاب کے سوا کسی اور کتاب میں نظروں سے نہیں گذرا۔ بلکہ یہ بات غل اور بے بنیاد ہے۔ اس وجہ سے کہ حضرت شیخ جلال الدین سلطان فیروز شاہ کے پوتے سلطان محمود کے ہم عصر تھے اور حضرت مخدوم جہانیاں سلطان فیروز شاہ کے ہم عصر تھے۔ اس لحاظ سے دونوں حضرات کے عہد میں کافی تفاوقت ہے ان کی ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ حضرت شیخ جلال الدین فیروز شاہ اور اس کے بیٹے سلطان محمد اور اسکے پوتے سلطان محمود تینوں کے عہد حکومت میں قید حیات م یں تھے تو ممکن ہوسکتا ہے لیکن صاحب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی قدس سرہٗ سلطان محمود سلطان محمد کے ہم عصر تھے۔ اور یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم[2]۔
[1]۔چینہ ایک قسم کا اناج ہے جو باجرہ سے بھی زیادہ باریک ہوتا ہے اور اسکے آتے کی روٹی زیادہ صاف نہیں ہوتی بلکہ میلی ہوتی ہے۔ یہ غرباومساکین کی غذا ہے اور خود روچینہ تو اور بھی فقراء کیلئے زیادہ افضل ہوتا ہے کیونکہ جنگل چیز ہے کسی کی ملکیت نہیں ہوتی۔ اس لیے حرام و حلال کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
[2] ۔ حضرت مخدوم جہانیاں اور حضرت جلال الدین کا ہمعصر ہونا بعید از قیاس نہیں جبکہ کتاب ہذا میں حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی کی عمر ایک سو ستر سال سے زائد بتائی گئی ہے۔ یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت سلطان المشائخ اور حضرت مخدوم صابر پیر بھائی اور ہمعصر تھے۔ حضرت سلطان المشائخ کے خلیفہ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی اور حضرت صابر پیر بھائی اور ہمعصر تھے۔ حضرت سلطان المشائخ کے خلیفہ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی اور حضرت صابر کے خلیفہ حضرت شیخ شمس الدین ترک بھی ہمعصر تھے چنانچہ حضرت شیخ نصیر الدن کے خلیفہ حضرت مخدوم جہانیاں اور حضرت شمس الدین ترک کے خلیفہ حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی بھی ہمعصر ہونے چاہیں۔ باقی رہا بادشاہوں کے عہد حکومت سے اندازہ لگانا یہ کوئی صحیح اندازہ نہیں ہے کیونکہ بادشاہوں کے دور جلدی بدلتے رہتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی نے جن کی عمر ایک سو ستر سال تھی۔ تینوں بادشاہوں کا عہد حکومت دیکھا ہو۔ جس طرح حضرت امیر خسرو نے چھوٹی عمر کے باوجود سات بادشاہوں کے دور دیکھے بلکہ ان سب کے وزیر رہے۔
(اقتباس الانوار)