شیخ جان محمد لاہوری: شریعت و فقہ حدیث میں عالم کامل اور طریقت و معرفتہ میں مقتدائے زمانہ تھے اور لاہور کے محلہ پرویز آباد میں جس کی آبادی شہر سے باہر تھی،رہتے تھے،صغر سنی میں شیک عبد الحمید خلیفہ شیخ اسمٰعیل المعروف بہ میاں کلاں لاہور سے تحصیل علوم میں مشغول ہوئے۔ایک دن ہمراہ استاد کے میاں صاحب موصوف کی خدمت میں حاضر ہوئے،میاں صاحب نے آپ کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اے لڑکے اگر تع عالم فاضل اور صاحب تحصیل ہوجائے تو ہمارے ساتھ احادیث کا تکرار کیا کرے گا۔آپ بسبب شرم و حیاء اور نہایت ادب کے خاموش رہے،شیخ عبد الحمید نے آپ کو کہا کہ اے لڑکے کہو کہ اگر آپ کی توجہ موجہ سے تحسیل علم میں فائز المرام ہوجاؤں تو آپ کی خدمت میں حاضر ہونگا۔ آپ نے ان کلمات کو ادا کیا۔اس پر میاں موصوف نے ہاتھ اٹھاکر آپ کے حق میں دعا کی جو درجۂ اجابت کو پہنچی اور آپ نے چند ماہ میں استعداد کلّی بہم پہنچالی۔جب شیخ عبد الحمید نے دیکھا کہ آپ مجھ سے علمی طاقت میں زیادہ ہوگئے ہیں اور ابھی انکا طائر ہمت بلند پر دازی میں ہے تو اپنے سے علیحدہ کر کے آپ کو شیخ تیمر کے حوالہ کیا جو لاہور میں اکابر علمائے وقت سے تھے پس آپ نے تھوڑے سے عرصہ میں ان استفادہ کر کے فضیلت کی دستار حاصل کی۔
ایک دن حضرت میاں صاحب اپنے مدرسہ میں مستغرق بحر مراقبہ تھے کہ آپ کا خیال دل میں گذرا اور فوراً آپ کو اپنی طرف جذب کیا۔آپ اس کشش کے سبب سے فی الضور حاضر آئے اور میاں صاھب نے آپ کو بغیگر فرماکر نعمت و افر عطا کی اور ولایت کے مرتبہ پر پہنچایا اور فرمایا کہ آئندہ حسبِ وعدہ خود دو شنبہ و جمعہ کو ہمارے پاس آکر احادیث کا تکرار کیا کرو چنانچہ آپ ہمیشہ تاحیات میاں صاحب بہ ایامِ مقررہ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر احادیث کا تکرار فرماتے اور جس حدیث میں شبہہ عائد ہوتا۔میاں صاحب مراقبہ میں روح پر فتوح حضرت رسالت پناہ سے تصحیح فرماتے۔وفات آپ کی ۱۱۲۰ھ میں ہوئی اور محلہ پرویز آباد مین دفن کیے گئے۔
کہتے ہیں کہ آپ نے بعد چند سال کے مقدم محلہ مذکور کو جو آپ کا خادم تھا خواب میں دکھائی دیکر فرمایا ہماری نعش کو یہاں سے نکال کر متصل حضرت میاں کے دفن کرو ورنہ تیرے محلہ میں سخت بلا نازل ہوگی،صب ح کو مقدم مذکور نے آپ کی نعش مبارک کو وہاں سے نکلواکر میاں صاحب کی قبر کے پاس دفن کرادیا ’’بحر فضل‘‘ تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)