شیخ جوائے شاہ سیدنگری رحمتہ اللہ علیہ
شیخ جوائے شاہ سیدنگری رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ شیخ فتح الدین بن شیخ محمد آفتاب صاحب سلیمانی رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ کے فرزنداصغر تھے بیعت وارادت اپنے حقیقی چچاشیخ حمزہ شاہ صاحب جوکالوی رحمتہ اللہ علیہ سے تھی۔
فقر میں کمال پانا
منقول ہے کہ ابتدائےاحوال میں آپ کاشتکاری کیاکرتے تھےایک مرتبہ بیساکھ کے مہینہ میں فصل گندم کی کٹائی کررہے تھے۔کہ شاہ راجن قتال بخاری رحمتہ اللہ علیہ ۱؎ (مدفون جُرامتصل علی پور چَٹھہ ضلع گوجرانوالہ) کے دربار کا مجاور بابادرباری شاہ سارے گاؤں سے بَھریاں (گندم کے گٹھے)لیتاہواآیااور آپ کو کہا شاہ راجن کی بَھری دو۔آپ نے کہا تم فقیروں سے بھی نہیں چھوڑتے۔اُس نے کہا ابھی تم فقیر نہیں۔صرف فقیروں کی اولادہو۔جب خود فقیر ہوجاؤگے تو بَھری نہ دینا۔آپ کویہ طعنہ نا گوارگزرا۔اسی وقت سب کاروبارچھوڑ کردرگاہِ عالیہ حضرت سخی شاہ سلیمان نوری رحمتہ اللہ علیہ پر بمقام بھلوال شریف چلے گئے۔جاتے ہی لاٹھیوں سے قبرکومارناشروع کیااوربے باکانہ کہاکہ آپ کے ہوتے ہوئے لوگ مجھ کوطعنہ دیتے ہیں کہ تم فقیر نہیں ہو۔لہذٰا اب مجھے فقرکاطریقہ بتاؤ۔سات روز تک وہاں رہے۔لیکن کچھ معلوم نہ ہوا۔آخر مایوس ہو کر وہاں سے چلے آئے۔راستہ میں ایک ضعیف العمربزرگ ملاقی ہوا۔اُس نے حقیقتِ حال پوچھا۔آپ نے تمام ماجراکہہ سُنایا۔اورکہاکہ حضرت سخی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ میں کوئی فیض نظر نہیں آیا۔اُس پیرمَردنے کہاواپس جاؤاور ادب و تعظیم سے التجاکروسب کچھ مل جاوے گا۔آ پ کی طبیعت میں تاثیر ہوگئی اور واپس دربار شریف پہنچےاور گریہ وزاری کرکے اپنا قصور معاف کروایا۔ حضرت سخی بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ نے مشاہدہ میں جمال کرایااورفرمایابیٹا!چتیاں میں خواجہ اختیارشاہ کے پاس جاؤ۔آپ خوشی بخوشی وہاں سے رخصت ہوئےاور مسافت طے کرتے ہوئے۔چننیاں (متصل ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ)میں پہنچےاور خواجہ اختیارشاہ رحمتہ اللہ علیہ کوملے اورکہا کہ میرا فیض آپ کے پاس امانت ہےاور میں حضرت سخی پیررحمتہ اللہ علیہ کی اولاد سے ہوں۔اُنہوں نے کہا کہ: "جَناں کَھناں آکرکہتاہے کہ میں سخی پیررحمتہ اللہ علیہ کی اولاد سے ہوں"۔
یہاں سے چلے جاؤ،آپ وہاں سےواپسی کے ارادہ پر اُٹھ کھڑے ہوئے۔لیکن پھرخیال آیا۔ ممکن ہےکہ میرافیض اس جگہ نہ ہو۔جیساکہ یہ کہتے ہیں۔لیکن انہوں نے یہ کیوں کہاکہ جَناں کَھناں سخی کی اولادبنتاہے۔حالانکہ میرےاولادِ سخی پیرہونے میں کوئی شبہ نہیں۔آپ اس خیال کے ماتحت دوبارہ اُن کی خدمت میں ملتجی ہوئے خواجہ صاحب نے فرمایا۔کہ میں آپ کا یقین دیکھناچاہتاتھا۔ الحمدللہ کہ آپ ثابت قد م نکلے۔واقعی آپ کا فیض اسی جگہ سے ہے۔چنانچہ ان کی صحبت و تربیّت سے مقاماتِ فقرسے متحقق ہوئے۔اس کے بعد کسی روز بابادرباری شاہ کی ملاقات کا اتفاق ہوا۔تو آپ نے پوچھاباباصاحب۔بتاؤ ابھی میں فقیر ہواہوں یانہیں؟انہوں نے کہا اب واقعی آپ فقیرکامل ہوگئے ہیں۔
۱؎یہ شاہ راجن۔مخدوم شاہ راجن قتال بخاری اوچی کی اولاد سے تھے۱۲ سید شرافت
عشق مجازی کادَورہ
منقول ہے کہ آپ کی طبیعت قلندرانہ تھی ۔طریق ملاقیہ رکھتے تھے۔فقیر ہونے کے بعد آپ نے گدائی پیشہ شروع کیا۔ایک روز گدائی کرتے ہوئے رسول نگری میں کنجروں کے محلہ کی طرف گئے وہاں ایک طوائف روشی نام جو بڑی خوبصور ت تھی۔اس پر عاشق ہوگئے۔روزانہ گداکرتے ہوئے وہاں چلے جاتےاوربازارمیں کھڑے ہوکر اُس کو دیکھاکرتے۔ اُس کو بھی آپ سے الفت ہوگئی۔جس وقت آپ دروازہ پر صدا بولتے تو اند ر سے اُٹھ کر دروازہ کے باہر آبیٹھتی۔آپ چند ساعت اُس کو دیکھ کر چلے جاتے۔
رقیب سے مقابلہ
ایک روز آپ عادت معہود پر اپنی معشوقہ کےدروازہ پر آئے تو دیکھاکہ وہاں ایک سیّد جونامی ڈاکوتھا۔اُس کے پاس پلنگ پر بیٹھاہے۔جب آپ نے صدا کی ۔تو روشی باہر نکل آئی۔سیّد نےاُس کو بہتیراروکا۔کہ میں تجھے مال وزرکھلایاکرتاہوں۔تو مجھ کو چھوڑ کرایک گداگر کونے سروالے فقیرکی طرف جاتی ہے۔اُس نے کہاکہ:
"یہ تو اِسی طرح ہوتاآیاہے اور اسی طرح ہوتاجائےگا"۔
اُس سیّد کو بڑا طیش آیااورآپ کو مخاطب ہو کرکہنے لگا۔کہ اے کونے فقیرااگرآج کے بعد میں تجھے یہاں دیکھاتوگولی ماردوں گا۔آپ نے کہاشاہ جی جس کی لگ گئی۔دیکھاجائے گاکہ کس کی لگی ہے۔ چنانچہ واقعہ یو ں ہواکہ دوسرے روز اُس سیّد نے بمعہ اپنے ساتھیوں کے موضع ونی کے تارڑاں پر ڈاکہ ڈالا۔گاؤں والوں نے مقابلہ کیا۔توپہلی گولی اُسی سیّد کولگی اور اُسی وقت مرگیا۔
معشوقہ کاخدمت میں چلاآنا
آپ نے دوسرے روزجب کنجروں کے دروازہ پرصداکی ۔تووہ کنجرکہنے لگے۔واہ فقیر صاحب آگے کچھ پیسے آتے تھے۔آج وہ بھی بندکردئیے ۔وہ سیّد مرگیاہے اب اس روشی کو ساتھ ہی لے جاؤ۔چنانچہ آپ اُس کو ہمراہ لے کر موضع سیدنگرمیں چلے گئے اور وہ گناہوں سے تائب ہوکر آپ کی خدمت میں رہنے لگی اورتمام عمر خدمت میں گذاری۔
معشوقہ کو بے وفائی کا ثمرہ
آپ نے وفات کے وقت اُس کو کہا اے روشی!اگرتوہماری قبر پر مجاوربنی رہے گی تو دنیامیں تیراگذارہ اچھاہوتارہے گااور تجھے کچھ پرواہ نہ ہوگی۔اور اگر تیری نیّت میں فرق آگیاتو سزاپائے گی۔اُ س نے عرض کیا میں تابعدارہوں ۔کبھی بے وفائی نہیں کروں گی۔ جب آپ کا انتقال ہوگیا۔توکچھ عرصہ بعد اس کو خیال آیا کہ فقیر صاحب تو اب فوت ہوگئے۔میں ابھی نوجوان ہوں۔رسول نگر میں کسی رئیس پٹھان سے نکاح کرلیتی ہوں اور گاہ بگاہ آپ کی قبر پر بھی سلام کرجایاکروں گی اور چراغ بتّی کرجایاکروں گی۔ابھی یہ ارادہ کررہی تھی کہ اچانک نظراس کی بند ہوگئی۔پھر تو بہتیراروئی پیٹی۔مگرنظرنہ کُھل سکی۔تمام عمر اندھی ہی رہی اور آپ کے مزار کی مجاور بنی رہی۔بعدمیں شیخ صِدقی شاہ صاحب رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ نے اُس کوایک کنیز خریددی کہ جس کانام مائی روڈی تھاوہ مائی روشی کی خدمت کیاکرتی تھی۔
وفات کے بعدکرامت
بیٹے کی بشارت دینا
سید عمربخش بن سیدلطف الدین صاحب برخورداری ساہنپالوی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں اولاد پیداہوکر مر جاتی تھی۔وہ نہایت مایوس ہوچکے تھے۔ایک رات آپ خواب میں ان کوملےاورکہا:
"تمہارابوٹالگ جاوے گا"
چنانچہ اس بشارت کے مطابق ان کے گھرلڑکا تولّد ہوا۔جس کانام بوٹے شاہ رکھاگیا۔
یارطریقت
آپ دنیاسے بے اولاد رخصت ہوئے۔آپ کے مریدوں سے آپ کے ہمجدی بھتیجے شیخ صِدقی شاہ بن شیخ خان بہادر صاحب سلیمانی رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ صاحب خلافت اورآپ کے جانشین تھے۔
مدفن
شیخ جوائے شاہ کی وفات ۱۲۴۰ھ میں ہوئی۔قبرضلع گوجرانوالہ میں گاؤں سے باہر مشرقی طرف ہے۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)