اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ شیخ کبیر نے شروع میں مخدوم شیخ تقی بن رمضان حائک سہروردی کےمرید ہوئے جنکا مزار قصبہ جھونسی میں ہے جوالہ آباد سے متصل ہے۔ اسکے بعد وہ رامانند بیراگی کی صحبت میں چلے گئے اور کافی ریاضت ومجاہدہ کے بعد جب ان پر توحید کا غلبہ ہوا تو ظاہری آداب چھوڑ کر بے ریا موحد کہتے ہیں۔ آپکا مسلک رندانہ ملا متیہ تھا۔ آخر انہوں نے خرقہ خلافت سلسلۂ فردوسیہ میں حضرت مخدوم بھیکہ سے حاصل کیا۔ شیخ کبیر کا طریق صلح کل تھا۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے ک ہ شیخ کبیر اگر چہ نشاج (روئی دھننے والے) تھے لیکن زبان ہندی میں توحید کے موضوع پر انہوں نے بہت شعر کہے ہیں۔ مسلمان آپکو مسلمان اور کافر آپکو کافر کہتے تھے۔ لیکن ؟آپ نے جواب دیا کہ اگر مجھے پاسکو تو۔ چنانچہ آپنے حجرہ کا دروازہ بند کردیا اور رحلت کر گئے۔ جب دروازہ کھولا گیا تو چند پھولوں کے سوا وہاں کچھ نہ تھا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ شیخ کبیر کو اہل اسلام نے وفات کے بعد قصبۂ مکہر میں دفن کردیا کہتے ہیں ایک دفعہ انہوں نے اپنےلیے ایک روٹی پکائی جسے کتالے گیا۔ آپ گھی اٹھاکر کتے کے پیچھے دوڑے اور کہنے لگے کہ گھی لگاکر کھاؤ۔ یہ دیکھ کر لوگوں نےکہنا شروع کیا کہ تم خراب ہوگئے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں جس طرح تانبا اکسیر کے ساتھ ملکر خراب ہوجاتا ہے میں بھی حق تعالیٰ کے ساتھ ملکر خراب ہوگیا ہوں۔ آپکا مزار قصبہ مکہر میں ہے اور زیارت گاہِ خلائق ہے۔ مکہر گورکھ پور کے نواح میں ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
(اقتباس الانوار)